उर्दू

اے ایم یو میں، جمہوریت کو قتل کرنے کی کوشش؟


اے ایم یو اپنےطلبہ کو قانونی نمائندگی نہ دینے پر بضد

(علی گڑھ)شوذب منیر


بین الاقوامی سطح پر معروف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں گزرشتہ ہفتہ کو یعنی 8؍فروری 2025 کو اکیڈمک کونسل کی میٹنگ منعقد ہوئی۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ کونسل کا یہ اجلاس جو کہ طلبہ کے مستقبل کو متاثر کرنے والی تعلیمی پالیسیوں کی تشکیل کے لیے ،ذمہ دارتھا اور اس میٹنگ میںطلبہ کی کوئی نمائندگی نہیں تھی۔ اکیڈمک کونسل کی اس میٹنگ میں طلبہ کی واضح غیر موجودگی نے ایک بار پھر یونیورسٹی کے اہم فیصلہ ساز اداروں سے طلباء کے اخراج کے دیرینہ مسئلے کوطشت از بام کردیاہے۔
پارلیمنٹ سےمنظور شدہ اے ایم یو ایکٹ اور اسکے قوانین کے نفاذ سے امید کی جاتی ہے کہ یونیورسٹی جمہوری تعلیمی ادارے کی مثال کے طور پر ترقی کرے گی۔ یونیورسٹی ایکٹ اے ایم یو کے سبھی اداروں کو منتخب نمائندگی فراہم کرتا ہے جس میں اعلیٰ ترین فیصلہ ساز ادارے جیسے کہ اے ایم یو کورٹ، ایگزیکٹو کونسل(EC)، اکیڈمک کونسل(AC) شامل ہیں۔ نمائندگان، ملک کی دیگر یونیورسٹیوں کی طرح، اساتذہ، طلباء اور دیگر عملے میں سے ہوتےہیں، یہ عمل نہ صرف قومی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی یونیورسٹی کے نظم و نسق میں ایک معیاری عمل کے طور پر تسلیم کیا جاتاہے۔
اے ایم یو اکیڈمک کونسل میں طلباء کی نمائندگی ان کے تعلیمی معاملات میں حصہ دار ہونے کی بنا پر ہے، جیسے کہ نصاب، کورسز، ڈگری وغیرہ۔اے ایم یو اکیڈمک کونسل میں طلباء کی نمائندگی پانچ طلباء پر مشتمل ہوتی ہے ۔ جس میں طلباء یونین کاصدر، ایک ریسرچ اسکالر، دو پوسٹ گریجویٹ طلباء اور ایک انڈر گریجویٹ طالب علم۔
ایسے ہی اے ایم یو کورٹ میں طلبہ کی نمائندگی طلبہ یونین کے صدر، نائب صدر، سکریٹری، طلبہ یونین کی ایگزیکٹو کونسل کا ایک رکن اور ساتھ ہی براہ راست منتخب ہونے والے گیارہ طلبہ پر مشتمل ہوتی ہے،کل ملا کر طلبہ کے 15 نمائندے ہوتے ہیں۔اگراکیڈمک کونسل کے فیصلے قانون کے دائرے میں طلبہ کی ضروریات کے مطابق نہیں ہے یا انکی ضروریات کی خلاف ورزی کرتی ہے تو اے ایم یو کورٹ کو اکیڈمک کونسل کے فیصلوں پر نظرثانی کرنے کا بھی اختیار حاصل ہے، اے ایم یو کورٹ کا یہ اختیار طلباء کو اکیڈمک کونسل کے فیصلوں کو درست کرنے کا ایک مؤثر موقع فراہم کر تا ہے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلباء مسلسل اپنی طلباء یونین کے انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں ، اے ایم یو میں 2018 کے بعد سے یعنی تقریباً سات برس کا زمانہ گزر گیا ہے، لیکن طلبہ یونین کے انتخابات نہیں ہوئے ۔ ایسے میں طلباء یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ انہیںقانونی طور پر فراہم کردہ اہم پالیسی پر بحث کرنے کے حق کو اےا یم یو انتظامیہ نے منظم اور مؤثر طریقے سے آوازوں کو خاموش کر دیا گیا ہے۔ کچھ طلباء کا یہ بھی واضح خیال ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے برسوں سےاپنے ہی ایکٹ، قوانین اور دیگر قواعد کی خلاف ورزی کرنے اور قواعد کے بغیر کام کرنے کی عادت ڈال لی ہے۔ اب طلبہ کے مابین یہ آوازیں اٹھنے لگی ہیں کہ انہیں اکیڈمک کونسل اور اے ایم یو کورٹ میں نمائندگی سے محروم کر دیا گیا ہے۔
اے ایم یو میں طلبہ یونین کے انتخابات کا مطالبہ کے حوالے سےالہ آباد کے ہائی کورٹ میں درخواست گزار سید کیف حسن کے مطابق، الہ آباد کے ہائی کورٹ آف جوڈیکیچر میں اسٹوڈنٹس یونین الیکشن ،سبھی باڈیز میں قانونی نمائندگی کے مطالبے کے حوالے سے دائر کی گئی رٹ بھی یونیورسٹی کے قوانین کے تحت ہی دی گئی ہے۔
یونیورسٹی کے سینئر اساتذہ اور کچھ سابق طلباء کا کہنا ہے کہ کم از کم گزشتہ بیس برسوں سے اکیڈمک کونسل میں طلباء کی نمائندگی نہیں ہوئی ہے اور اے ایم یو کورٹ کا انتخاب بھی کافی عرصے سے نہیں ہوا ہے۔تاہم، اب نہ صرف طلباء بلکہ اساتذہ بھی محسوس کرنے لگے ہیں کہ وہ اے ایم یو ایکٹ کے تحت فراہم کردہ جمہوری حقوق سے منظم طریقے سے محروم ہیں۔تقریباًسات برسوں سے یعنی مارچ 2018 سے اکیڈمک کونسل میںکوئی منتخب اساتذہ نہیں ہیں۔ اسی طرح اے ایم یو کورٹ کے لیے اساتذہ اور طلبہ کے انتخابات نہیں کرائے گئے ہیں۔ ایک سینئر استادکا کہنا ہے کہ یونیورسٹی کے جمہوری کام کے حوالے سے یہ صورتحال کیمپس میں جمہوریت کو قتل کرنے کی کوشش کے مترادف ہے۔
ہائی کورٹ میں درخواست گزارکیف حسن کا کہنا ہے کہ طلبہ کی نمائندگی کی مسلسل کمی یونیورسٹی کے فیصلہ سازی کے عمل میں شفافیت اور شمولیت کے متعلق سنگین سوالات اٹھاتی ہے۔ طلبہ کے انتخابات کے لیے کوئی واضح روڈ میپ نہ ہونے کی وجہ سے ان خدشات میں اضافہ ہو رہاہے ہیں کہ آیا انتظامیہ اس دیرینہ مسئلے کو حل کرے گی یا پھر اپنی اڑیل پالیسیوں کے سبب سب سے زیادہ متاثر ہونے والے طبقے کے مطالبات، منشااور اصل ضروریات کااحساس کرانے والی آواز کے بغیرہی اپنا دیرینہ اڑیل رویہ برقرار رکھے گی، وہیں انہوں کہا یہ سبھی جانتے ہیں کہ اسی طرح طلباء سے ان کی نمائندگی سلب کر لی گئی اور اس طرح ان کے اظہار کے حق کے استعمال کوبھی کچلا دیاجو کے نتیجہ میں قومی اور ملکی امنگوں کوتباہ کیا جا رہا ہے۔ حسن نے مزید کہا کہ اے ایم یو انتظامیہ ایک منظم اور خطرناک طریقے سے یونیورسٹی میں جمہوری نظام اور طلباء کی نمائندگی کو کچل رہی ہے، جو یونیورسٹی کی بنیاد کوکھوکھلا کر رہی ہے۔
اس حوالے سے بات کرنے کے لیے جب نمائندے نے ایم آئی سی پی آر او سے فون پر رابطہ کیا، فون پر رابطہ نہ ہونے پر اور واٹس ایپ میسج کے ذریعے رابطہ کیا گیا، تاہم اس خبر کی اشاعت تک کوئی جواب نہیں دیا گیا۔