علی گڑھ(بیورو)صدر جمعیت علما شہرعلی گڑھ، مفتی محمد اکبر قاسمی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ کے اندر اردو زبان سے دشمنی اس قدر موجود ہے کہ شاید وہ اس حیثیت کو ختم کرنے کے در پے ہیں ،مسلمان اور اردو کا نام سنتے ہی وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے اندر نفرت کا شعلہ بھڑک اٹھتا ہے۔ حالیہ دنوں ایسا ہی نظارہ ریاستی اسمبلی میں نظر آیا جو نہایت شرمناک ہے انہوں نے کہا کہ جب وزیر اعلیٰ نے اردو کو کٹھ ملوں کی زبان کہہ کر نہ صرف توہین آمیز تبصرہ کیا بلکہ اسکی سرکاری حیثیت پر ہی سوال کھڑا کر دیا ہے ۔وزیر اعلیٰ اپنے مخالفین کو تنقید کا نشانہ بنا نے کی کوشش میں وہ خود ہی تنقید کا نشانہ بن گئے، وزیر اعلیٰ یوگی اپنے اردو مخالف جذبات کے دوران یہ بھول گئے کہ اردو صوبہ کی دوسری سرکاری زبان ہے ۔ سرکاری ضابطے کے مطابق اسمبلی کی کارروائی ہندی کے بعد اردو میں انجام دی جانی چاہئے ۔اتر پردیش اردو اکادمی اور فخر الدین علی احمد کمیٹی یو پی کے دو ایسے سرکاری ادارے ہیں جو اردو کے فروغ کے لیے کام کرتے ہیں ۔اردو زبان کٹھ ملا کی زبان نہیں بلکہ اردووہ زبان ہے جس سے محبت نے رام پرساد بسمل ، رگھوپتی سہائے ،فراق گورکھپوری ،برج نارائن چکبست ، پنڈت ہری چند اختر، سمپورن سنگھ کالرا، گلزار، دیا شنکر، نسیم بن گئے،اردو وہ ہےجس میں بھگت سنگھ خطوط لکھتے تھے ، خودگاندھی جی ہندوستانی زبان کہتے تھے، وہ زبان جسے نہرو اور پٹیل پسند کرتے تھے۔ وہ زبان جس نے انقلاب زندہ باد اورجئے ہند کا نعرہ دیا، جس زبان میں محبت اور بغاوت کے گیت گائے گئے،درجنوں نہیں بلکہ ہزاروں ایسے ہندو ادیب اور شاعر ہوئے ہیں جنہوں نے پوری زندگی اردو کی خدمت کے لیے وقف کر دی۔مطبع منشی نول کشور تقریباً ایک صدی تک اردو کا سب سے بڑا شاعتی ادارہ رہا ۔یہاں سے کلاسکی ادب کی سینکڑوں کتابیں شائع ہوئیں۔
انہوں نے کہاکہ ۱۹۸۶ء میں تو مختلف پارٹیوں کے ارکان اسمبلی کی مخالفت کی وجہ سے انگریزی پوری طرح سے اسمبلی سے باہر کر دی گئی تھی مگر اب بی جے پی حکومت ملکی زبانوں کی جگہ پر انگریزی اور انگریزیت کو بڑھاوا دینا چاہتی ہے۔واضح رہے کہ ۱۹۸۹ء میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا تھا ۔اس قانون کے مطابق سرکاری احکامات ، اشتہار ات، درخواستیں اور سرکاری نیم پلیٹ
ہندی کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی جاری کئے جاتے تھے ۔لیکن یوگی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد ان پر عمل در آمد بہت کم ہو گیا ہے ۔اردو کے خلاف اسمبلی میں دئے گئے یوگی کے بیان کے بعد اردو کی سرکاری حیثیت پر کئی سوال کھڑے ہو گئے ہیں جن کا جواب یوگی حکومت کی طرف سے دیا جانا چاہئے کہ جبکہ اردو کو یوپی میں دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے تو ایک کےساتھ سوتیلا رویہ کیوں؟دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ اردو کے ‘خلاف بیان میں یوگی نے اردو کے کم ازکم نو الفاظ استعمال کیے اور دوسرے روز اپوزیشن پر حملہ کرنے کے لیے اردو کے ایک شعر کا سہارا بھی لیا۔
انہوں نے کہا کہ مختلف میڈیاذرایع سے ملنے والی خبروں کے مطابق ماضی میں دہلی کے پولیس سربراہ کی جانب سے محکمہ پولیس کو روایتی اردو اور فارسی الفاظ استعمال نہ کرنے کا حکم دیا جا چکا ہے اور لفظ اہم کی جگہ ‘وشیش اور مجرم کی جگہ ‘اپرادھی جیسے الفاظ استعمال کرنے کو کہا گیا ہے۔انہوں نےکہا کہ اردو کے خلاف ایک ماحول بنتا جا رہا ہے، انہوں نے کہا گزشتہ اسمبلی ،لوک سبھا، اور بلدیاتی انتخابات میں بھی سیکولر ہونے کی دعویٰ کرنے والی پارٹیاں بھی اردو کے الفاظ کے استعمال سے بچتی رہی ہیں، ان پارٹیوں کے امیدواروں کے پوسٹریا بینر بھی کہیں بھی اردو زبان میں دیکھنے کونہیں ملے ہیں۔ایسے میں ہم سب کی زمہ داری ہے کہ اردو زبان کے فروغ کےلیے ہر ممکن کوشش کرتے رہیں ۔