اپریل میں تمام مذاہب کے رہنماؤں کی ہوگی میٹنگ
نئی دہلی، آل انڈیا مسلم مجلسِ مشاورت، دہلی چیپٹر (رجسٹرڈ) نے بھارت میں بڑھتے ہوئے سماجی تناؤ اور ہم آہنگی کو بگاڑنے کی کوششوں پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ تنظیم نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ دہلی میں مختلف مذہبی تنظیموں کے ساتھ مل کر بھائی چارے اور قومی یکجہتی کو مضبوط کرنے کے لیے ایک وسیع مہم شروع کرے گی۔ یہ فیصلہ اے آئی ایم ایم ایم دہلی چیپٹر کی گورننگ کمیٹی کے ایک اہم اجلاس میں لیا گیا، جس کی صدارت چیپٹر کے صدر سید نور اللہ نے کی۔
سماجی تانے بانے کی حفاظت تمام امن پسند ہندوستانیوں کی ذمہ داری – سید نور اللہ
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سید نور اللہ نے کہا کہ ملک اس وقت ایک نازک دور سے گزر رہا ہے، جہاں مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان منصوبہ بند طریقے سے کشیدگی پیدا کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ یہ رجحان نہ صرف معاشرے بلکہ ملک کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ کچھ خود غرض عناصر ہندوستان کئ گنگا جمنی تہذیب کو نقصان پہنچانے کی سازش میں مصروف ہیں، جسے ہر حال میں ناکام بنایا جانا چاہیے۔ انہوں نے تمام امن پسند ہندوستانیوں سے اپیل کی کہ وہ معاشرتی اتحاد اور بھائی چارے کو برقرار رکھنے کے لیے آگے آئیں اور انتشار پسند قوتوں کی سازشوں کو ناکام بنائیں۔
اپریل میں تمام مذاہب کے رہنماؤں کی بڑی میٹنگ منعقد ہوگی
مجلسِ مشاورت نے اعلان کیا ہے کہ اپریل میں تمام مذاہب کے مذہبی رہنماؤں کی ایک عظیم الشان میٹنگ منعقد کی جائے گی۔ اس میٹنگ میں معاشرتی اتحاد کو فروغ دینے اور ملک کو تقسیم کرنے کی کوششوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک جامع حکمتِ عملی تیار کی جائے گی۔
تعلیم، اوقاف اور اردو زبان کے مسائل پر بھی گفتگو
اجلاس میں تنظیم کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر ایم اے جوہر نے ایجنڈے کی تفصیلات پیش کیں اور شرکاء سے اس پر تفصیلی تبادلہ خیال کرنے کی اپیل کی۔ اس موقع پر نائب صدر ڈاکٹر ایم رحمت اللہ نے کہا کہ کسی بھی معاشرے اور ملک کی ترقی کے لیے امن و سکون کا ہونا لازمی ہے۔ کارگزار جنرل سکریٹری محمد طیب نے اردو زبان سے متعلق مسائل پر اپنے خیالات کا اظہار کیا اور اس کے تحفظ و فروغ کی ضرورت پر زور دیا۔ اجلاس میں اوقاف اور تعلیم سے متعلق معاملات پر بھی تفصیلی گفتگو کی گئی۔
اجلاس کے اختتام پر مولانا انور قاسمی نے تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا اور اس مہم کو مزید مضبوطی سے آگے بڑھانے کے عزم کا اعادہ کیا تاکہ بھائی چارے اور سماجی ہم آہنگی کو فروغ دیا جا سکے۔