مسلم یونیورسٹی انتظامیہ اخراجات پر آر ٹی آئی درخواست کا جواب دینے سے گریزاں
رپورٹ۔شوزب منیر
(علیگڑھ)
علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی درجے کی حیثیت گزشتہ تقریباً چار دہائیوں سے زیادہ عرصے سے تنازعات کا محوررہی ہے۔ملت یہ سمجھ چکی تھی کہ 1972 کے اے ایم یو ایکٹ کے ذریعہ اقلیتی درجہ چھینا جا چکا ہے۔ اقلیتی درجہ کے حصول کی جد وجہد میں مسلمانوں نے کئی نشیب و فراز دیکھے، اقلیتی درجہ کے حق میں احتجاج کرنے دہلی جارہےطلبہ پر وحشیانہ حملے ہوئے، اس حملے کو آج بھی دادری کانڈ کے نام سے یاد کیاجاتا ہے۔ علیگڑھ سمیت متعدد جگہ ہوئے مظاہرے کے دوران پولیس کی وحشیانہ لاٹھی چارج کا بھی سامنا کیا۔ یونیورسٹی کے اقلیتی درجہ واپس لانے کے مقصد سے ہوئی یہ تحریک ان طلبا کے بہے ہوئے خون سے رنگین ہوئی ۔ طویل جد وجہد کے بعد 1981 میں اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی اور اس وقت کے وزیر تعلیم پروفیسر نور الحسن کی قیادت میں بالآخر اقلیتی حیثیت کو حاصل کر نے کی کاوشیںاے ایم یو ترمیمی ایکٹ 1981 کی شکل میں سامنے آئیں،اسمیں دو ترامیم کو شامل کیا گیا، جس میونیورسٹی کی اقلیتی حیثیت نمایاں ہوئیں تھیں۔
جس میں ایکٹ کے سب ۔سب سکشن (سی) سے سب سکشن ٹو سے سکشن ۵ میں پہلی ترمیم کی گئی جس نے،ــــ خاص طور پر ہندوستان کے مسلمانوں کی تعلیمی، ثقافتی ترقی کو فروغ دینے کے لیےفراہم کیا گیا تھا۔ دوسرا یہ کہ ایکٹ کے سیکشن 2 ذیلی دفعہ (l) کے تحت یونیورسٹی کی تعریف میں ترمیم تھی۔ ان دونوں ترامیم کو الہ آباد ہائی کورٹ نے یونیورسٹی سے اسکی اقلیتی حیثیت کو ختم کرتے ہوئے منسوخ کر دیا تھا اور فی الحال سپریم کورٹ میں یونیورسٹی اپنے کردار کو محفوظ رکھنے کے لیے زیر سماعت ہے۔ یونیورسٹی اپنے اقلیتی درجہ کا تحفط سکشن5 (2)(سی) کے تحت کرتی ہے۔مرکز برائے فروغ تعلیم اور ثقافت کا قیام ہوا، مسلمانوں کی تعلیمی اور ثقافتی پسماندگی کو دور کرنے میں مددگار بننے کے خواہشمندلوگوں نے اسکی ستائش کی ۔ اس مرکز کے لیے یونیورسٹی کے بجٹ میں رقم فراہم کیا جاتا ہے۔ آرڈیننس میں کہا گیا ہے کہ ”وائس چانسلراس سینٹر کاڈائریکٹر کا تقرر کرے گا، تقرری کی مدت ”دو برس کی ہوگی اور وہ دوبارہ تقرری کا بھی اہل ہوگا۔ ڈائریکٹر بورڈ آف مینجمنٹ کا سکریٹری/کنوینر ہوگا،اسکے وائس چانسلر چیئرمین ہوں گے۔ وائس چانسلر سنٹر کی اس مینیجنگ کمیٹی کا چیئرمین بھی ہو گا ”جو سنٹر کا انتظام کرے گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مرکز میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر کا کوئی عہدہ نہیں ہے،پھر بھی مرکز میں بطور سی پی آئی او خدمات انجام دئے رہے ، اسسٹنٹ ڈائریکٹر، صباح الدین نے ایک آر ٹی آئی کے جواب میں بتایا ہےکہ اس وقت کے وائس چانسلر کے ذریعہ شعبہ کیمیکل انجینئرنگ کے استاد نسیم اے خان جو اس شعبے میں بی ٹیک ہیں،انہیں چھ برس قبل بطور “متبادل انتظام” مرکز کا ڈائرکٹر مقرر کیا تھا۔ واضح رہے کہ آرڈیننس میں ڈائریکٹر کے طور پر کام کرنے کے لیے “متبادل انتظام” کا کوئی بندوبست نہیں ہے۔ آرڈیننس میںواضح ہے کہ ڈائریکٹر کو دو سال بعد دوبارہ تعینات کیا جا سکتا ہے،لیکن آر ٹی آئی درخواست کے جواب میںدوبارہ تقرری کے لیے کوئی آرڈر نمبر فراہم نہیں کیا گیا ۔ ابتدائی طور پر نسیم اے خان کو متبادل انتظام کے طور پر مقرر کیے جانے کے علاوہ سوال یہ ہے کہ کیا انکا اپنے عہدے پرچھ برس تک بغیر کسی حکم کے جاری رہنا درست ہے؟ ایسے میں یونیورستی انتظامیہ کی جانب سے اس مرکز کو سنجیدگی سےچلانے کے متعلق شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے۔ مناسب تقرری اور دوبارہ تقرری نہ ہونا مرکز میں اخراجات کے جوابدہی پر بھی سوال اٹھ کھڑے کرتے ہیں۔ جیسا کہ آر ٹی آئی درخواست دہندگان کو مطلع کیا گیا کہ ڈائریکٹر کی دوبارہ تقرری کے بغیر سیشن 2021-22 کے لیے 10.80 ، سیشن 2022-23 کے لیے 10.60 ،2023-24 کے لیے 13.06اور سیشن 2024-25 کے لیے11.00 لاکھ جو تقریباً 50 لاکھ ہوتے ہیں، مرکز کو فنڈز منظور کیے گئے ۔ وہیں آر ٹی آئی درخواست میں منظور شدہ فنڈ کے اخراجات کے متعلق پوچھے گئے سوالات پر سی پی آئی او ، اپیلٹ اتھارٹی یا سینٹر کے ڈائریکٹر نسیم اے خان نےکوئی جواب نہیں دیا ۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخرتقریباً 50 لاکھ کی کثیر رقم کس کے دستخط پر خرچ ہوئی ؟ یونیورسٹی کے سینئر اساتذہ حیران ہیں کہ ٹیکس دہندگان کی اتنی کثیر رقم کا اس طرح سے لین دین کیسے ہو سکتا ہے؟ وہ یہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ اساتذہ اور طلباء دونوں کی جانب سے یونیورسٹی کو اقلیتی درجہ حاصل کرانے کی کاوشوں جاری ہیں، ایسے میںاس اہم خصوصیت کے حامل مرکز کو نقصان پہنچانے کا اس طرح کا نا رواسلوک کیسے کیا جا سکتا ہے۔کچھ سینئر اساتذہ نے الزام لگایا ہے کہ یونیورسٹی کئی برسوں سے ایک علاقائی گروپ کے زیر اثر ہے ، ڈائریکٹر پر بھی اس گروپ سے تعلق کاالزام ہے، یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ دباؤ کا اثر اپنے آخری عروج پر ہے اور ـــ۔کوئی احتساب نہیں ہے۔ ـکی حدتک جا پہنچا ہے۔
اس سلسلے میں اے ایم یو اور ایم آئی سی پی آر او کے فائنانس آفیسر سے ٹیلی فون اورپھر واٹس ایپ میسج کے ذریعے رابطہ کیا گیا، لیکن اس خبر کی اشاعت تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا