رپورٹ۔شوزب میر
علی گڑھ بین الاقوامی شہرت یافتہ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی نے اپنا تعلیمی پروفائل کس انداز میں برقراررکھا اسکا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ گزشتہ پانچ برس سے زیادہ عرصے میں سینٹر فار پروموشن آف سائنس (سی پی ایس) کے محض دو سیمینار کا انعقاد دیکھا ہے۔ در اصل اس مرکز کاقیام پروفیسر ایم این فاروقی سابق وائس چانسلر اے ایم یو کےدور میں ہوا تھا ، اس مرکز سے سائنس کے فروغ کی بہت امیدیں وابستہ تھیں۔ قواعد کے مطابق، سینٹر کے ایک ڈائریکٹر کا تقرر کیا جاتا ہے، جس کے فرائض میں مرکز کے مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے پروگرام ترتیب دینا شامل ہے، جس میں
(۱) سائنسی علم کی اہمیت کے متعلق بیداری پھیلانا
(۲) اسکی ترقی کو مقبول بنانا اور فروغ دینا
(۳) مدارس میں سائنس کی تعلیم کو فروغ دینا
(۴) اردو میڈیم ؍ مسلم مینجمنٹ کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں سائنسی تعلیم کے معیار کو بہتر بنانا
ایک آر ٹی آئی کے جواب میں بتایا گیاکہ سنٹر کے ڈائریکٹر کے طور پرنسیم اے خان 2جولائی 2019سے تعینات ہیں۔ ٹائمز آف تاج کے قارئین کو یاد ہوگا کہ یہ موصوف وہی ہیں جنہیں سینٹر فار پروموشن آف ایجوکیشنل اینڈ کلچرل ایڈوانسمنٹ آف انڈیا (سی پی ای سی اے ایم آئی) کے ڈائریکٹر کے طور پر تعینات کیا گیا ہے، کردار وہی ہے۔ اس مرکز کے لئےموصوف کی تقرری او ایم نمبر(سی) 1642 مورخہ 2 جولائی 2019 کے ذریعے کی گئی تھی،جوکہ(4+1) فور پلس ون یعنی پانچ برس قبل ،جبکہ فراہم کردہ اصول کے مطابق ڈائریکٹر کی تقرری صرف چاربرس کی مدت کے لیے ہو گی، قارئیں یاد ر ہے کہ CEPECAMI کے معاملے کی مانند ہی،CPS( سی پی ایس) میں بھی موصوف اپنی مدت کار ختم ہونے بعد بھی بغیر کسی آرڈر کے نہ صرف بطورڈائریکٹر خدمات انجام دئے رہے ہیں بلکہ مالی معاملات بھی دیکھ رہے ہیں، کہانی وہی ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اے ایم یو نے بھی(Conflict of Interest) ‘مفادات کے ٹکراؤ کے اصول کو نظر انداز کرتے ہوئے ڈائریکٹر کو بطور(CPIO) سی پی آئی او بھی مقرر کیا۔آر ٹی آئی درخواست دہندہ کی اپیل کے مطابق، آر ٹی آئی کا جواب معلومات فراہم نہ کر نے، نامکمل معلومات دینے کی کوششوں سے بھرا ہوا ہے، جیسا کہ CPECAMI کے معاملے میں بھی ہوا تھا، یونیورسٹی نے سی پی ایس کے لئے بھی ہرسیشن یعنی2021-22,2022-23,2023-24 اور2024-25 کے لیے 4.89 لاکھ روپیہ کی منظورکئے، اور مزید انفراسٹرکچر کے لیے 2 لاکھ اور او ایس ڈی ڈویلپمنٹ کی جانب سے بھی ایک لاکھ روپئے منظور کئے گئے ، اسمیںسیشن کی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔ منظور شدہ کل رقم 22.56 لاکھ ہے، جیسا کہ CEPECAMI کے معاملے میں یہاں بھی رقم کےاستعمال کے متعلق بتایا نہیں گیا ، کہانی بالکل وہی ، شخصیت بھی وہی اور یونیورسٹی انتظامیہ کا طریقہ کار بھی وہی ہے۔
آر ٹی آئی کے جواب میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مرکز کا بنیادی کام، سائنس کو فروغ دینے کے لیے ہے، لیکن گزشتہ پانچ برسوں میں صرف دو ورکشاپس کا انعقاد ہوااور وہ بھی صرف مدارس کے لیے، مرکز کے مزیدبنیادی باقی تین کام کو نظر انداز کرتے ہوئے مرکز کا صرف ایک مقصد پورا ہوتا نظر آرہا ہے۔ ایسے میںسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ مرکز صرف مدارس کے لیے ہی ہے یا پھر سماج میں سائنس کے فروغ کے لیے جوکہ سیکولر اخلاقیات پر مشتمل ہے؟
ورکشاپس کے حوالے سے آر ٹی آئی کے جواب میں بتایا گیا ہے کہ وائس چانسلر کے ذریعہ 30 ہزار اوراے ایم یوکے منیجر دواخانہ طبیہ کالج کے ذریعہ 10 ہزاررپیہ عطیہ کیا گیا۔ مختصراً یہ کہ گزشتہ چھ برسوں میں مرکز کو منظور کی گئی کل رقم 22.90 لاکھ ہے اورجیسا کہ CPECAMI کے معاملے میں ہوا ، ٹھیک اسی طرح ڈائریکٹر نےاخراجات کے متعلق معلومات فراہم کرنے سے گریز کیا اور ایسا محسوس ہوتاہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ غافل ہے، کہانی بھی وہی ہے۔
حیرت انگیز طور پر ڈائریکٹر دونوں سینٹرز کے لیے بغیر آرڈر کے خدمات انجام دئے رہے ہیں ، CPSکی کہانی بھیCEPECAMI کی Replay معلوم ہورہی ہے، شاید یونیورسٹی انتظامیہ کے Key board بورڈسےAccountability احتساب جیسا اہم بٹن فیل ہو چکا ہے، اسکی وجہ شاید CPECAMI والی ہے؟
اس معاملے کی جانکاری کے حوالے سے ایم آئی سی پی آر او سے ٹیلی فون اور واٹس ایپ میسج کے ذریعے رابطہ کیا گیا،لیکن اس خبر کی اشاعت تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔