علیگڑھ۔ بعض شخصیات ایسی ہوتی ہیں جن کی حیات میں تو لوگ ان سے ملنے کے لیے کوشاں رہتے ہی ہیں لیکن جب وہ تختہ فانی سے کوچ کرکے حیات جاویدانی پالیتے ہیں،تو انہیں عام و خاص یکساں یاد کرتے ہیں۔ یہ وہی شخصیات ہوتی ہیں جو ہمارے بیچ سے چلی تو جاتی ہیں، مگر اپنی خوش اخلاقی، علم دوستی اور تہذیبی وضع داری کے سبب دلوں پر انمٹ نقوش چھوڑ جاتی ہیں۔ مشفقی انوار احمد صدیقی صاحب کی شخصیت بھی ایسی ہی تھی۔ اب وہ نہیں رہے، مگر ان کی یادیں ہمیشہ باقی رہیں گی۔ میں2019ءمیں پروفیسر عبدالرحیم قدوائی صاحب کے توسط سے ان سے متعارف ہوا، اور پھرایک علمی و فکری رشتہ قائم ہوگیا۔ اور اس مختصر عرصے میں ہی وہ اپنی متانت، سنجیدگی اور علم دوستی کی بدولت دل کے نہایت قریب ہو گئے۔
انوار احمد صدیقی کا تعلق دریاباد(بارہ بنکی) کے ایک معززاور علمی خانوادے سے تھا۔ اعلی تعلیم انھوں نے لکھنو یونیورسٹی سے حاصل کی تھی۔ عملی زندگی کا آغاز وطن دریاباد میں ایک اسکول سے بحیثیت انگریزی اور سماجی علوم کے استاد کی حیثیت سے کیا۔ اس کے بعد1965ء میں آپ کا تقرر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اسکول قاضی پاڑا میں بحیثیت استاد ہوا ، کچھ عرصہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سٹی اسکول میں پی۔ جی۔ ٹیچر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں؛ اور بہ حسن و خوبی فرائض منصبی سے سبک دوش ہوئے۔
انوار صاحب عہد نوجوجوانی سے ہی مولانا عبدالماجد دریا بادیؒ کی تحریروں کے شائق تھے۔ یہ نسبت برائے نام نہ تھی، بلکہ گہرے فکری اور جذباتی رشتوں میں پروئی ہوئی تھی۔ انوار احمد صدیقی صاحب کو مولانا دریابادی سے قلبی لگاؤ تھا۔ وہ مولانا کی تحریریں یوں پڑھتے جیسے کوئی شخص آئینے میں اپنا عکس دیکھ رہا ہو، مولانا موصوف کا معمول تھا کہ وہ عصرو مغرب کے درمیان اپنی رہائش گاہ کے مردانہ حصے میں واقع برآمدے میں عام نششت کا اہتمام کرتے تھے جس میں ان کے مجلسی اور متعلقی اور ہر قسم کے ملاقاتی پابندی سے شرکت کرتے تھے۔ انوار صاحب بھی ان مجلسوں میں انتہائی پابندی سے شریک ہوتے تھے اور ارشادات و ملفوظات سے مستفید و محظوظ ہوتے تھے۔ ان مجلسوں میں حاضرین کو علمی، دینی، تہذیبی اور دیگر مسائل و معاملات میں سوال و جواب اور گفتگو کا عام حق حاصل تھا۔
انوارصاحب کو مولانا دریا بادی کی ہر تحریر نہایت عزیز تھی وہ اس کا بالاستعجاب مطالعہ اپنا ایک اخلاقی فریضہ سمجتے تھے۔ باوجود اس کے کہ 1965 میں وہ بغرض ملازمت علی گڑھ تشریف لے آئے تھے لیکن مولانا سے ان کے تعلق میں کسی قسم کی کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ، اور ان کی آمد ورفت جاری رہی، مولانا کی وفات کے بعد مولانا کے اہل خانہ سے وہ ہمیشہ رابطے میں رہے، اور وہ مولانا کی تصانیف کی اشاعت پر انتہائی مسرت محسوس کرتے تھے۔ دین داری ان کی شخصیت کا ایک اہم پہلو تھا۔ نماز روزہ اور وظائف واوراد کا اہتمام، ایصال و ثواب کی پابندی ان کا وطیرہ تھا۔ مولانا دریا بادی کے بھتیجے اور داماد ڈاکٹر محمد ہاشم صاحب استاد شعبہ سیاسیات علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، کے مکان پر وہ پابندی سے تشریف لاتے تھے، مولانا دریا بادی کے نواسے پروفیسر اے آر قدوائی صاحب کے وہ عرفی لحاظ سے تو استاد نہ تھے لیکن ان سے نہایت شفقت و التفات کا معاملہ رکھتے تھے۔ اے آر قدوائی صاحب اس وقت سیدنا طاہر سیف الدین ہائی اسکول (منٹو سرکل)میں چھٹی جماعت کے طالب علم تھے، بقول خود انھیں انوار صاحب نے ہی نہایت شفقت و عنایت سے البیلی زبان اردو کی صرف و نحو سے متعارف کرایا۔ اور نہایت دل نشیں پیرائے میں اس زمانہ نو عمری میں ہی شیریں زبان اردو سے ذہن و قلب کو متلذذ ہونے کا شعورفراہم کیا۔ اس بات کا اعتراف پروفیسر قدوائی موصوف متعدد مواقع پر کرتے رہے ہیں۔ جس کا بین اظہارہے امریکہ سے شائع انگریزی ادب پر اپنی کتاب کا انتساب اپنے انھیں محسن استاد کے نام کرنا ۔
مرحوم انوار صاحب خوش لباس اورباذوق شخصیت کے حامل تھے، علی گڑھ شہر میں کس شیرینی فروش کے یہاں کون سی شیرینی عمدہ اور لذیذ ہوتی ہے، انھیں خوب علم تھا،اور شیرینی پر ہی کیا موقوف نمکین اور مشروبات سے متعلق بھی ان کی معلومات قابل دیدتھی۔ انھیں اپنے وطن مالوف دریاباد سے تادم آخر قلبی اور خصوصی تعلق رہا۔ جب مولانا دریا بادی کی رہائش گاہ کو ان کے وارثین نے مدرسے کے لیے وقف کیا اور وہاں ایک قابل ذکر مدرسے کا نظم عمل میں آیا، تو مرحوم انوار صاحب کو نہایت مسرت ہوئی اور بیادگار مولانا دریابادی حفظ قرآن، تجوید،اوردیگر علوم کو محیط اس مدرسہ اسلامیہ کی وہ ہمیشہ اعانت کرتے رہے۔
مولانا عبدالماجد دریابادی (1892-1977ء ) بیسویں صدی کے ان نابغہ روزگاراہلِ قلم میں سے تھے جنہوں نے تحقیق، انشا پردازی، صحافت، اور تفسیر جیسے کئی میدانوں میں یکتائی حاصل کی۔ ان کی تحریریں محض علم کا سرمایہ نہیں، بلکہ فکری دیانت اور تہذیبی وقار کی روشن مثال ہیں، وہ خوش گفتار، نرم خو، ملنسار، اور تہذیب کے پیکر تھے۔ مولانا عبدالماجد دریابادی کا انتقال1977ء میں ہوا، اور آج ان کی صحبت میں بیٹھنے اور انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھنے والے افراد شاذ و نادر ہی باقی ہیں۔ انوار احمد صدیقی مرحوم ان خوش نصیبوں میں سے تھے جنہیں مولانا کی محفلوں میں شرکت کا شرف حاصل تھا۔
ان کی بے غرض علم دوستی کا ایک واقعہ میرے مشاہدے میں آیا، میں ایک مقالہ لکھ رہا تھا ، مولانادریابادی کے کلام کے مجموعے کی مجھے ضرورت تھی، جو کمیاب ہے۔ میں نے محض ذکر ہی کیا تھا کہ انوار صاحب نے اس کی موجود گی کانہ صرف اظہار کیا بلکہ انہوں نے شکیل صاحب دریابادی کو طلب کرکے وہ مجموعہ میرے پاس بھجوا دیا۔حالاں کہ یہ وہ موقع تھا جب وہ کرونا کی وباء کے باعث کسی سے ملنے جلنے سے نہایت احتیاط کرتے تھے۔ شکیل صاحب نے بتایا کہ انوار صاحب نے احتیاطاً وہ کتاب پہلے ہی برآمدے میں رکھوا دی تھی، اور جب میں وہاں پہنچا تو انہوں نے دور سے ہی کہا کہ “وہ سامنے رکھی ہے، لے جاکر ڈاکٹر صاحب کو دے دو۔” آج کی نئی نسل میں یہ ایثار، یہ محبت، اور یہ علم دوستی کم یاب ہے۔
اللہ کریم موصوف مرحوم کی مغفرت فرمائے، ان کے درجات بلند کرے، اور ان کے پس ماندگان کوکار خیر کی توفیق عطا فرمائے، کہ وہ مرحوم کے حق میں بہترین صدقہ جاریہ ثابت ہوں۔ آمین۔