
بیکنٹھی دیوی کنیا مہاودیالیہ، کے اردو ڈپارٹمنٹ کی جانب سے شاعر مرزا غالب کو یاد کیا گیا
آگرہ: بیکنٹھی دیوی کنیا مہاودیالیہ، آگرہ کے اردو ڈپارٹمنٹ کی جانب سے عالمی شہرت یافتہ شاعر مرزا غالب کو یاد کیا گیا۔ اردو ڈپارٹمنٹ کے ‘بزمِ ادب’ میں سب سے پہلے ‘کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور’ پر ایک سمپوزیم کا انعقاد ہوا، جس میں اردو ڈپارٹمنٹ کی طالبات نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ طالبات نے خاص طور پر غالب اور آگرہ سے ان کے تعلقات پر روشنی ڈالی اور اس بات کی خوشی کا اظہار کیا کہ عالمی شہرت یافتہ شاعر مرزا غالب ہمارے شہر آگرہ کے ہیں۔
اس کے بعد اردو ڈپارٹمنٹ کی سربراہ پروفیسر نسرین بیگم نے دیوانِ غالب کے پہلے شعر ‘نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا’
سے اپنی بات کا آغاز کیا اور کہا کہ غالب آگرہ کے ہیں اور انہیں آگرہ کی سرزمین سے بے حد محبت تھی۔ آج ہم انہیں یاد کر رہے ہیں۔

سمپوزیم کے بعد عالمی شہرت یافتہ غزل گائک سدھیر نارائن کا تعارف پروفیسر نسرین بیگم نے کرایا اور کہا کہ سدھیر نارائن حقیقت میں کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ وہ آگرہ کی شان ہیں کیونکہ مرزا غالب کے ساتھ ان کا نام جڑ گیا ہے۔ پرنسپل پروفیسر پونم سنگھ نے ایک خوبصورت ہرا بھرا پودا اور ایک نہایت خوبصورت پینٹنگ دے کر ان کا کالج میں استقبال کیا۔
اس کے بعد ہمارے اپنے شہر کے عالمی شہرت یافتہ سدھیر نارائن نے مرزا غالب کی غزلوں کو اپنی خوبصورت آواز میں پیش کیا۔ کالج کی تمام طالبات نے مرزا غالب کو جانا، پہچانا اور ان کی غزلوں سے لطف اندوز ہوئیں۔ انہوں نے
‘خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر دم نکلے’، احمد فراز کی غزل ‘رنجش ہی سہی’ اور امیر خسرو کی ‘چھاپ تلک’ پر لطف اندوز ہوئیں۔

سدھیر نارائن نے کہا کہ ہم نے ہندوستان اور ہندوستان سے باہر سینکڑوں پروگرام کیے، مگر بیکنٹھ دیوی کی طالبات نے جس دلچسپی سے غالب کی غزلوں کو سن کر لطف اٹھایا اور اپنے شہر کے ہی غالب کو سمجھا، وہ میرے لیے بہت خاص ہے۔
آخر میں اپنے صدارتی خطاب میں پرنسپل پروفیسر پونم سنگھ نے کہا کہ غالب وہ عظیم شاعر تھے جو پوری دنیا میں پسند کیے جاتے ہیں۔ 227 سال گزرنے کے بعد بھی آج غالب زندہ ہیں۔ طالبات کو غالب کو پڑھنے کے لیے حوصلہ افزائی کی۔ انہوں نے عالمی شہرت یافتہ غزل گائک سدھیر نارائن کا کالج آ کر اپنی پیشکش دینے پر شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ ہمارے کالج کے لیے خوشی کی بات ہے کہ اردو ڈپارٹمنٹ نے مرزا غالب کو یاد کرنے کے لیے سیمینار کا انعقاد کیا اور غالب کی غزلوں کو سدھیر نارائن جی کی آواز میں سننے کا موقع فراہم کیا، میں پروفیسر نسرین کو مبارکباد دیتی ہوں۔

اس موقع پر کالج کا پورا عملہ اور سینکڑوں کی تعداد میں طالبات موجود تھیں۔ بی۔اے چوتھے سمسٹر کی طالبہ علمہ رفی اور بی۔ایس۔سی کی طالبہ کو ان کے تحقیقی مقالے پر سرٹیفیکیٹ دیے گئے۔
شکریہ اور نظامت پروفیسر نسرین بیگم نے کی۔
‘ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے، کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور’
آخر میں قومی ترانے کے بعد تقریب کا اختتام ہوا۔