उर्दू

جشن ولادت امام حسن مجتبٰی علہ السلام

آگرہ ,خانقاہ قادریہ نیازیہ میوہ کٹرہ،آگرہ پر 5 رمضان المبارک، 6 مارچ جمعرات کو حضرت امام حسن ع کی ولادت کے مبارک موقعہ پر سجادہ نشین حضرت سید اجمل علی شاہ صاحب جعفری قادری نیازی کی جانب سے  روزہ افطار اور لنگر کا اہتمام کیا گیا منقبت خوانی اور سلام پڑ کر آنحضرت کو خراجِ عقیدت پیش کیا گیا سجادہ نشین حضرت سید محمد اجمل علی شاہ صاحب نے حضرین کو مبارکباد دی اور ملکی قومی اور بین القوامی مسائل کے لئے بارگاہِ رب العزت میں رسول و آلیہ رسول کے وصیلے سے دعاء فرمائے نیذ خطاب کرتے ہوئے فرمایا : 

امام المسلیمین حضرت امام حسن مجتبٰی علیہ سلام   15 رمضان المبارک 3ھجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خاندان میں آپ کی پیدائش بہت بڑی خوشی تھی۔ جب مکہ مکرمہ میں رسول کے بیٹے یکے بعد دیگرے دنیا سے جاتے رہے اور سوائے لڑکیوں کے آپ کی اولاد میں کوئی نہ رہا تو مشرکین طعنے دینے لگے اور آپ کو بڑا صدمہ پہنچا اور آپ کی تسلّی کے لیے قرآنمجید میں سورۃ الکوثر نازل ہوئی جس میں آپ کوخوش خبری دی گئی ہے کہ خدا نے آپ کو کثرتِ اولاد عطا فرمائی ہے اور مقطوع النسل آپ نہیں بلکہ آپ کا دشمن ہوگا۔ آپ کی ولادت سے پہلے ام الفضل نے خواب دیکھا کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جسم کا ایک ٹکرا ان کے گھر آ گیا ہے۔ انہوں نے رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے تعبیر پوچھی تو انہوں فرمایا کہ عنقریب میری بیٹی فاطمہ عہ کے بطن سے ایک بچہ پیدا ہوگا جس کی پرورش تم کرو گی۔
رسول خدا  حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کے مدینہ میں انے کے تیسرے ہی سال پیدائش گویا سورۃ کوثر کی پہلی تفسیر تھی۔ دنیا جانتی ہے کہ امام حسن بن علی اور ان کے چھوٹے بھائی امام حسین کے ذریعہ سے اولادِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وہ کثرت ہوئی کہ باوجود ان کوششوں کے جو دشمنوں کی طرف سے اس خاندان کے ختم کرنے کی ہمیشہ ہوتی رہیں جن میں ہزاروں کوسولی دے دی گئی۔ ہزاروں تلواروں سے قتل کیے گئے اور کتنوں کو زہر دیا گیا۔ اس کے باوجوداج دُنیا الِ رسول کی نسل سے چھلک رہی ہے۔ عالم کا کوئی گوشہ مشکل سے ایسا ہوگا جہاں اس خاندان کے افراد موجود نہ ہوں۔ جبکہ رسول کے دشمن جن کی اس وقت کثرت سے اولاد موجودتھی ایسے فنا ہوئے کہ نام ونشان بھی ان کا کہیں نظر نہیں اتا۔ یہ ہے قران کی سچائی اور رسول کی صداقت کا زندہ ثبوت جو دنیا کی انکھوں کے سامنے ہمیشہ کے لیے موجود ہے اور اس لیے امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ کی پیدائش سے پیغمبر کو ویسی ہی خوشی نہیں ہوئی جیسی ایک نانا کو نواسے کی ولادت سے ہونا چاہیے۔ بلکہ آپ کو خاص مسرت یہ ہوئی کہ آپ کی سچائی کی پہلی نشانی دنیاکے سامنے آئی۔ ساتویں دن عقیقہ کی رسم ادا ہوئی اور حضور صلی علیہ و آلہ وسلم نے آپ کا نام حسن رکھا یہ نام آپ کےلیے پروردگار عالم کی طرف سے عنایت ہوا۔ حضرت امام سجاد علیہ السلام سے روایت ہے کہ جس وقت امام حسن(ع) دنیا میں آئے تو حضور اکرم(ص) کے پاس خداوند عالم کی طرف سے جبرائیل امین(ع) نازل ہوئے اور کہا کہ چونکہ امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (ع) کی نسبت آپ کے ساتھ ایسی ہے جیسے ہارون کو موسی(ع) کے ساتھ تھی۔ اس لیے علی(ع) کے بیٹے کا نام ہارون(ع) کے بیٹے کے نام پر رکھو جس کا نام حسن(ع) تھا۔ لہذا تم بھی اپنے اس نواسے کا نام حسن رکھو۔یہ نام اسلام کے پہلے نہیں ہوا کرتا تھا۔ یہ سب سے پہلے رسولِ خدا  کے اسی فرزند کا نام قرار پایا۔ حسین ان کے چھوٹے بھائی کانام بھی بس انہی سے مخصوص تھا۔ ان کے پہلے کسی کا یہ نام نہ ہوا تھا۔ آپ کی ولادت کے بعد آپ کے نانا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت فرمانے کے بعد اپنی زبان اپنے نواسے کے منہ میں دی جسے وہ چوسنے لگے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دعا فرمائی کہ اے اللہ اسے اور اس کی اولاد کو اپنی پناہ میں رکھنا۔
سات سال آپ نے اپنے نانا کے زیر سایہ گزارے اور ۳۰ سال اپنے والد گرامی کے ساتھ گزارے اور آپ کی مدت خلافت 6مہینے اور امامت دس سال ہے۔ آپ ہر پہلو سے “حسن(ع)” تھے رسول اکرم(ص) جیسا نانا، والدہ گارمی حضرت زہرا(ع)مرضیہ، والد گرامی علی ابن ابی طالب(ع)۔

حضرت امام حسن علیہ اسلام حضرت احمدِ مجتبٰی محمد مصطفٰے سے ہو بہ ہو مشاہبت رکھتے تھے عبد الحق محدث صاحب دہلوی فرماتے ہیں اگر کوئی صحابہ سے پوچھتا کے حضور کسے تھے تو وہ اس کو حضرت امام حسن کے پاس بھیجتے اور پہتے ان کو دیکھلو ایسے ہی تھے

47 سال کی عمر میں آپ کی شہادت ہیرے کے  زہر سے ہوئی

چند فضائل :

آنحضور صلی علیہ و آلہ وسلم فرمایا کرتے اے اللہ میں اسِ (امام حسن کو) دوست رکھتا ہوں تو بھی اسے دوست رکھ اور اسے بھی جو اس کو دوست رکھے

فرمایا : یہ میرا بیٹا سردار ہے اور اللہ اس کے ذریعہ انقریب مسلمانوں کے گروع میں صلح کرائیگا( بخاری شریف )
ایک صحابی کابیان ہے کہ میں اس دن سے امام حسن کوبہت زیادہ دوست رکھنے لگاہوں جس دن میں نے رسول کی آغوش میں بیٹھ کرانہیں ڈاڈھی سے کھیلتے دیکھ،
ایک دن سرورکائنات امام حسن کوکاندھے پرسوارکئے ہوئے کہیں لیے جارہے تھے ایک صحابی نے کہاکہ اے صاحبزادے تمہاری سواری کس قدراچھی ہے یہ سن کرآنحضرت نے فرمایایہ کہوکہ کس قدراچھاسوارہے

(ص ۱۵ بحوالہ ترمذی)۔

امام بخاری اورامام مسلم لکھتے ہیں کہ ایک دن حضرت رسول خداامام حسن کوکندھے پربٹھائے ہوئے فرمارہے تھے خدایامیں اسے دوست رکھتاہوں توبھی اس سے محبت کر ۔

حافظ ابونعیم ابوبکرہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دن آنحضرت نمازجماعت پڑھارہے تھے کہ ناگاہ امام حسن آگئے اوروہ دوڑکرپشت رسول پرسوارہوگئے یہ دیکھ کررسول کریم نے نہایت نرمی کے ساتھ سراٹھایا،اختتام نمازپرآپ سے اس کاتذکرہ کیاگیاتوفرمایایہ میراگل امیدہے“۔” ابنی ہذا سید“ یہ میرابیٹا سیدہے اوردیکھویہ عنقریب دوبڑے گروہوں میں صلح کرائے گا۔

امام نسائی عبداللہ ابن شدادسے روایت کرتے ہیں کہ ایک دن نمازعشاء پڑھانے کے لیے آنحضرت تشریف لائے آپ کی آغوش میں امام حسن تھے آنحضرت نمازمیں مشغول ہوگئے ، جب سجدہ میں گئے تواتناطول دیاکہ میں یہ سمجھنے لگاکہ شایدآپ پروحی نازل ہونے لگی ہے اختتام نمازپرآپ سے اس کاذکرکیاگیا توفرمایاکہ میرافرزندمیری پشت پرآگیاتھا میں نے یہ نہ چاہاکہ اسے اس وقت تک پشت سے اتاروں،جب تک کہ وہ خودنہ اترجائے، اس لیے سجدہ کوطول دیناپڑا۔

حکیم ترمذی ،نسائی اورابوداؤد نے لکھاہے کہ آنحضرت ایک دن محوخطبہ تھے کہ حسنین آگئے اورحسن کے پاؤں دامن عبامیں اس طرح الجھے کہ زمین پرگرپڑے، یہ دیکھ کر آنحضرت نے خطبہ ترک کردیااورمنبرسے اترکرانہیں آغوش میں اٹھالیااورمنبر پرتشریف لے جاکرخطبہ شروع فرمایا

کتبِ حدیث میں کثرت سے اہلِ بیت اور امام حسن علیہ سلام کی شان میں حدیث موجود ہیں جو انکے فضائل اور بزرگی کا علم کراتی ہیں

امام حسن علیہ سلام کی سیرت سے ہمیں اخلاق صلح رحمی پاکیزگی تقوٰی اسلام دوستی قربانی ایثار  اور  انسانیت کا درس ملتا ہے ،
محفل کی نظامت شاہد ندیم نے کی ،تلاوت قرآنِ پاک و منقبت خوانی شارق نیازی نے کی۔ شہر کے عُشاقِ  اہلِ بیت  موجود رہے جن میں خاص طور پر سید محتشم علی شاہ سیدفیض علی شاہ
انتظامیہ میں حاجی امتیاز احمد زاہد حسین قریشی  نثار احمد صابری لعیق اویسی نیازی نایاب نیازی اختر اویسی نیازی سعید اللہ ماہر منور حسین خان اعجاز نیازی سنی نیازی شاداب نیازی عامر نیازی حاجی توفیق سید مبارک علی سید زاہد منشی ریاض دانش تانش شارق برکت علی قریشی فاروق بیگ شاداب فریشی کرم الٰہی جمال احمد نیازی  جاند اصغر افضال نیازی و دیگر حضرات موجود رہے

لنگر اور مبارکباد کے ساتھ محفل کا اختطام ہوا ،