خانقاہ حضور شیخ العالم علیہ الرحمہ کے زیر اہتمام ہونے والی دو تراویح میں سے پہلی تراویح پانچ پارہ یومیہ چھ روز میں مکمل کی گئی۔ یہ سعادت جامعہ چشتیہ کے متعلم حافظ محمد ارحم صابری نے حاصل کی، جنہوں نے قرآن کریم مکمل سنایا۔جب کی دوسری تراویح 26 رمضان کو مکمل ہوگی ان شاءاللہ ۔
اس موقع پر خانقاہ حضور شیخ العالم علیہ الرحمہ میں ایک خصوصی نشست منعقد ہوئی، جس کی سرپرستی سجادہ نشین خانقاہ حضور شیخ العالم اور جامعہ چشتیہ کے بانی، حضرت شاہ عمار احمد احمدی نیر میاں صاحب قبلہ نے فرمائی۔
اس موقع پر حضور صاحب سجادہ نے اپنے بصیرت افروز خطاب میں قرآن کریم کی آیات کی تلاوت سے آغاز فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں اور جنات کو اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا ہے، اور عبادت محض نماز و روزے تک محدود نہیں، بلکہ اس میں زکوٰۃ اور حج جیسے مالی و بدنی فرائض بھی شامل ہیں۔
آپ نے زکوٰۃ کی عدم ادائیگی پر سخت وعید بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ قرآن و حدیث میں اس کے بارے میں سنگین تنبیہات موجود ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص زکوٰۃ ادا نہیں کرتا، قیامت کے دن اس کے مال کو جہنم کی آگ میں گرم کیا جائے گا، پھر اسی سے اس کے ماتھے، پہلو اور پیٹھ کو داغا جائے گا۔ اسی طرح حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں اس شخص سے جہاد کروں گا جو نماز اور زکوٰۃ میں فرق کرے۔
حضور نیر میاں صاحب قبلہ نے فرمایا کہ زکوٰۃ کا اصل مقصد مال کی پاکیزگی اور مستحقین کی مدد ہے۔ اگر کوئی نماز پڑھتا ہے، رمضان کے روزے رکھتا ہے مگر زکوٰۃ ادا نہیں کرتا، تو اس کے تمام اعمال اس کے منہ پر دے مارے جائیں گے اور انہیں کوئی اجر حاصل نہ ہوگا۔
حضور صاحب سجادہ نے مزید فرمایا کہ زکوٰۃ اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک ہے، جو ہر اس مسلمان پر فرض ہے جو مالک نصاب ہو، یعنی جس کے پاس ساڑھے سات تولہ سونا، ساڑھے باون تولہ چاندی، یا اس کے برابر رقم ہو، اور اس پر ایک سال گزر جائے۔ ایسے شخص پر لازم ہے کہ وہ اپنے مال کا چالیسواں حصہ (2.5%) اللہ کی راہ میں خرچ کرے۔
آپ نے اس بات پر بھی زور دیا کہ زکوٰۃ کی رقم مستحقین تک پہنچانے کے لیے صحیح طریقہ اختیار کرنا ضروری ہے۔ زکوٰۃ کے اصل حقدار فقرا، مساکین، یتیم، بیوائیں اور مستحقینِ دین ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ زکوٰۃ کی رقم مدارس اسلامیہ کو دینا ضروری نہیں، بلکہ مستحق افراد کو تلاش کرنا افضل ہے۔ تاہم، چونکہ مدارس دین کی حفاظت کے مراکز ہیں اور یہاں قرآن و حدیث کی تعلیم دی جاتی ہے، اس لیے ان کو زکوٰۃ دینا بہت زیادہ فائدہ مند ہے۔

صدقہ فطر کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے حضور نیر میاں صاحب نے فرمایا کہ یہ ایک واجب مالی عبادت ہے، جو ہر صاحب نصاب شخص پر لازم ہے، چاہے اس کے مال پر سال نہ گزرا ہو۔ صدقہ فطر کی ادائیگی عید کی نماز سے پہلے ہونی چاہیے تاکہ مستحقین عید کی خوشیوں میں شریک ہو سکیں۔
آپ نے فرمایا کہ صدقہ فطر کا اصل مقصد یہ ہے کہ ہر مسلمان عید کے دن خوشی محسوس کرے، اس لیے جو لوگ استطاعت رکھتے ہیں انہیں گیہوں کے بجائے کھجور، کشمش یا ان کے مساوی رقم ادا کرنی چاہیے۔ آپ نے فرمایا کہ گیہوں سے صدقہ فطر ادا کرنے کا جو عمومی معمول بن گیا ہے، وہ درحقیقت ضرورت مندوں کی حقیقی مدد کے بجائے محض ایک رسمی عمل بن چکا ہے، جبکہ شرعی طور پر اگر کسی کے پاس زیادہ مال ہو تو اسے عمدہ چیز سے صدقہ فطر ادا کرنا چاہیے تاکہ زیادہ سے زیادہ ضرورت مند لوگ اس سے مستفید ہو سکیں۔
حضور صاحب سجادہ نے اپنے خطاب کے اختتام پر فرمایا کہ زکوٰۃ اور صدقہ فطر، دونوں مالی عبادات ہیں اور ان کا مقصد محتاجوں اور ضرورت مندوں کی مدد کرنا ہے۔ لہٰذا، ہمیں اپنے مال کی زکوٰۃ صحیح وقت پر ادا کرنی چاہیے اور صدقہ فطر کو محض رسم نہ سمجھ کر، بلکہ ایک فریضہ سمجھ کر بہتر چیز سے ادا کرنا چاہیے تاکہ زیادہ سے زیادہ مستحقین اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔
یہ نشست نہایت روحانی اور اصلاحی پیغامات سے بھرپور رہی، جس میں زکوٰۃ، صدقہ فطر اور اسلامی مالی عبادات کے صحیح مفہوم پر روشنی ڈالی گئی۔