उर्दू

حضرت سید منورعلی شاہ قادری کا 14واں رمضان مبارک کو فاتحہ اور روزہ افطارکا اہتمام کیا گیا


آگرہ، سالانہ فاتحہ حضرت سید منور علی شاہ صاحب قادری رضہ آستانہ حضرت میکش خانقاہ قادریہ نیازیہ میوہ کٹرا،آگرہ میں سجادہ نشین حضرت سید اجمل علی شاہ قادری کی سرپرستی میں روزہ افطار اور محفل منقبت کا انعقاد ہوا۔
سید فیض علی شاہ نے بتایا کہ حضرت سید منور علی شاہ جعفری قادری صاحب رحمۃ اللہ علیہ عارف المعارف قدوۃ الاولیاء حضرت امجد علی شاہ جعفری قادری قدس سرہُ کے بڑے فرزند اور جانشین ہیں آگرہ میں سنہ 1195ھ 1781ء کو پیدا ہوئے۔


کم سنی میں ایک روز حضور فرزندِ غوث العظم محی الدین ثانی شاہ عبد اللہ بغدادی رضی اللہ عنہ نے آپ کی زبان پر اپنا لعاب دہن لگایا اور فرمایا (لسانك لساني) اس کی زبان میری زبان ہے اس رشاد مبارک کی برکت سے ساری عمر آپ کی زبان سے جو امر جاری ہوتا وہ پورا ہوجا تا تھا صدہا کرامتیں آپ کی مشہور ہیں اکثر بادشاہ امراء آپ کے مریدوں میں شامل تھے راجا دولت راو سندھیا بھی عقیدت مندوں میں تھے اندھا خاندان کے کئی لوگ آپ سے بیعت تھے آگرہ میں بڑی گیارویں آپ کے آستانہ میں ہوا کرتی تھی۔ ہندوستان بھر میں سلسلہ قادری کے بزرگوں میں آپکا نامِ نامی مہتاج تعارف نہیں بہت کم عمر پائی لیکن بڑے بڑے کام انجام دئیے خدمتِ خلق اور عبادتِ کے ساتھ عزت اور پاکیزہ زندگی بسر کی .آپ کے چار صاحبزادے تھے جس میں حضرت سید امیر علی شاہ صاحب اور حضرت سید مظفر علی شاہ صاحب نے لمبی عمر پائی دونوں نذر گیارویں شریف و عرس و محفل کا انعقاد ساتھ ساتھ کرتے اور اپنے دادا کی قائم کردہ روایتوں کو آگے بڑھاتے رہے یہ زمانہ خاندان کے عروج کا زمانہ تھا سلامیہ لوکل ایجینسی آگرہ کا دفتر بھی سید امیر علی شاہ صاحب کی صدارت میں آپ کے گھر کے دفتر سے ہی تین سال تک چلا جو 1878 میں خود آپ کی درخواست پر جامع مسجد آگرہ منتقل ہوگیا اس دفتر سے آگرہ کی تمام شاہی مساجد و مزارات کا انصرام و انتظام کیا جاتا تھا حضرت سید امیر علی شاہ صاحب نے 1879 میں آپ نے لاولد انتقال کیا الغرض حضرت سید منور علی شاہ جعفری قادری ؒ کی نسل صرف حضرت سید مظفر علی شاہ قادری نظامی ؒ سے چلی اور وہی آپ کے جانی و روحانی جانشین ہوئے جو حضرت سید محمد علی شاہ میکش اکبرآبادی کے جد ہیں آپ فرماتے ہیں” سید منور علی شاہ صاحب کے صاحبزادوں میں بحیثیت صوفی اور ایک ذی علم جانشین کے حضرت سید مظفر علی شاہ ؒ صاحب اللہ بہت مشہور و معروف بزرگ تھے جن کے خلافا اطرافِ ہند میں پھیلے ہوئے تھے تصوف کی مشہور کتاب جواہر غیبی آپ ہی کی تصنیف ہے آپ کو خاندانی اجازت کے علاوہ حضرت تاج الاولیاء شاہ نظام الدین حسین صاحب ؒ سے بھی سلسلہ قادریہ چشتیہ میں اجازت تھی ” (سوانحو تعلیمات مع تذکرہ فرزند غوث الاعظم ؓ مطبع مصطفی پریس ۱۹۶۵ مصنف حضرت سید محمد علی شاہ میکش اکبرآبادی ؒ)
بوستانِ اخیار میں سعید احمد مارہروی رقم طراز ہیں “سید منور علی شاہ ؒ : آپ سید امجد علی شاہ ؓ کے فرزند رشید مرید اور سجادہ نشین تھے ،خدا شناسوں کے پسندیدہ افعال آپ میں موجود تھے ، آپ کے عہد میں مرہٹوں کی عملداری تھی ،مہاراجہ سندھی بہاد اور اکثر مرہٹہ سردار آپ کے معتقد اور حلقہ خوش تھے اور فاتحہ حضرت غوث الاعظم قدس سرہٗ یعنی گیارویں شریف کے اخراجات اور دیگر مصارف کے واسطے بیش قرار جاگیریں آپ کو نذر کی تھیں ۔ ۱۲۳۵ھ میں آپ نے وسال کیا اپنے پدر بزرگوار کے قریب محوراحت ہیں ۔ لوح مزار پر یہ تاریخ کندہ ہے ،
سید عالی نسب شاہ منور علی
نور نبی و علی قدوۃ اہلِ یقیں
چونکہ زباغِ جہاں رفت خزاں شدبہار
بلبل قدسی بگفت سرِ بہشت بریں “
صفحہ ۲۶۱ “

(ماخذ : بوستانِ اخیار از سعید احمد مارہروی حضرت غوث اعظم مع تذکر سوانح و تعلیمات غوث اعظم : از حضرت محمد علی شاہ میکش اکبرآبادی وغیرہ )
محفل میں خاص طور پر سید شبر علی شاہ، سید شمیم احمد شاہ، سید صنوان احمد شاہ ، سید مہتشم علی شاہ، سید فیض علی شاہ، سید فائز علی شاہ، سید نقی علی شاہ، معراج الدین، سید اشفاق احمد عرفانی، سید مسعود احمد، سید علی، سید عرفان سلیم، سید خاور ہاشمی، اظہر عمری،سمیع آغائی، سید انتخاب علی، سید جنید،مبارک علی،ریاض، دانش، تانش، شارق، برکت علی قریشی، فاروق بیگ، شاداب فریشی، کرم الٰہی، جمال احمد نیازی، عادل نیازی، اصغرعلی، چودھری فیضان، افضال نیازی و دیگر حضرات موجود رہے۔
انتظامیہ میں حاجی امتیاز احمد، اختر اویسی، زاہد حسین قریشی، دانش نیازی، نثار احمد صابری، لعیق اویسی نیازی، نایاب نیازی، اختر اویسی نیازی، سعید اللہ ماہر، اعجاز نیازی، سنی، جاوید نیازی، مستقیم، شاداب نیازی، عامر نیازی، حاجی توفیق، وغیرہ لوگوں نے شرکت کی ۔
صوفی اور شہر کے معزز لوگوں نے شرکت کی۔