خیابانِ ادب میں ”علی گڑھ میں فکشن نگاری کا مستقبل“
کے عنوان سے ادبی نشست کا انعقاد
علی گڑھ ,,خیابانِ ادب ثمر ہاؤس دھراعلی گڑھ میں عالمی اردو ریسرچ اسکالرز ایسوسی اور انجمن محبان اردو علی گڑھ کی جانب سے بعنوان”علی گڑھ میں فکشن نگاری کا مستقبل“ ایک ادبی نشست کا انعقاد عمل میں آیا۔جس کی صدارت معروف ناقد سابق صدر شعبہئ اردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ پروفیسر صغیر افراہیم نے کی۔جب کہ نظامت کے فرائض عادل فراز نے بحسن و خوبی انجام دئیے۔اس موقع پر سہ ماہی ’سیما‘مجلہ علی گڑھ کے مخصوص شمارے علی گڑھ میں معاصر اردو فکشن (1974ء سے2024ء تک) کا رسم اجراء بھی عمل میں آیا۔صغیر افراہیم صاحب نے کہا کہ مجھے بہت خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ خیابان ادب ثمر ہاؤس میں آج علی گڑھ کی فکشن نگاری کے ماضی،حال اور مستقبل کے حوالے سے بہت اہم گفتگو ہو رہی ہے۔
علی گڑھ کے فکشن نگاروں کا جائزہ لیا جائے تو ایک طویل فہرست دیکھنے کو ملتی ہے۔مثلاًسید محمد اشرف، طارق چھتاری، غضنفر، پیغام آفاقی، احمد رشید، سید غیاث الرحمن، ابن کنول، شارق ادیب، غیاث الدین، آصف نقوی، اکرم شروانی، مصاعد قدوائی، ساجدہ زیدی، زاہدہ زیدی، صدیقہ بیگم، رفعت بلگرامی، نجمہ محمود، شبیہ زہرا حسینی، امیر زہرا، سیدہ ضیاء احتشام، شہناز ہاشمی، آصف اظہار علی، ماجدہ خاتون، نعیمہ پاشا، انجمن آرا،عفت آرا، عطیہ عابد، عذرا نقوی وغیرہ۔خوشی کی بات یہ ہے کہ آج سہ ماہی سیما کے مخصوص شمارے کا رسم اجراء علی گڑھ کی تیسری اور چوتھی پیڑی کر رہی ہے۔جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آنے والے وقت میں فکشن نگاری کے حوالے سے علی گڑھ کا مستقبل بہت بلند ہے۔ثنا فاطمہ نے کہاعالمی اردو ریسرچ اسکالرز ایسوسی، انجمن محبان اردو علی گڑھ،بزم نوید سخن،انڈین لٹریری کلب،اور اردو ہندی ساہتیہ منچ کے اراکین کی شرکت سے ہماری اس بزم میں چار چاند لگ گئے ہیں۔یہ انجمنیں ہند،اردو،اور انگریزی زبان کے لکھنے پڑھنے والے نئے نوجوان قلم کاروں کو ایک پلیٹ فارم عطا کرتی ہیں جہاں وہ اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر سکیں۔فکشن کے حوالے سے ان تمام انجمنوں نے نئی نسل سے تعلق رکھنے والے نوجوان تخلیق کاروں کا تعارف دنیا بھر میں کرایا ہے۔سہ ماہی سیما کا یہ شمارہ اس وجہ سے بھی کافی اہم ہو جاتا ہے کہ اس میں علی گڑھ سے تعلق رکھنے والے نئے فکشن نگاروں کے حوالے سے اہم مضامین دیکھنے کو ملتے ہیں اور بہت سے ایسے افراد کے نام بھی دیکھنے کو مل جاتے ہیں جو اس رسالے کی آمد سے قبل منظر عام پر نہیں آ سکے تھے۔عادل فرازؔنے کہا اس رسالے کی یہ بھی خاص بات ہے کہ اس میں نئی نسل کے نوجوان افسانہ نگاروں کے فن کے حوالے سے اہم تبصراتی اور تنقیدی مضامین بھی دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔بہت کم عرصے میں اس رسالے نے ادبی حلقوں میں اپنی ایک الگ شناخت قائم کر لی ہے۔خاص طور سے سہ ماہی سیما کے اس مخصوص شمارے کی اشاعت سے قبل ہی ادبی حلقوں میں بہت گہما گہمی تھی۔اور آج جب یہ رسالہ منظر عام پر آیا ہے تو اس نے ایک نئی تاریخ رقم کر دی ہے۔پروگرام میں شامل ہونے والوں میں،محمد ثمر،محمد افضل، محمد عالم،ذوالفقار خان،محمد حسین،سجاد حسن،راشداکبر،جاوید سرور، انعم فاطمہ،زینت زیبا، وغیرہ پیش پیش رہے۔