अन्य

’’اول بھی بھارتی اور آخر بھی بھارتی‘‘ – ڈاکٹر امبیڈکر: ایک بصیرت مند مصلح

آج ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کی 135 ویں جینتی ہے۔ وہ بھارت کے سب سے بڑے بصیرت مندوں میں سے تھے۔ ڈاکٹر امبیڈکر کے ورثے کو نظر انداز کرنے کی جان بوجھ کر اور نامناسب کوششیں کی گئی ہیں۔ ایک صدی سے زیادہ عرصے کے بعد، ان کے ورثے کے ساتھ سب سے بڑی ناانصافی یہ ہے کہ انھیں محض ایک دلت لیڈر بنا دیا گیا۔ آج انھیں نہ صرف دلتوں اور پسماندہ طبقات کے لیے مزاحمت کی علامت ماناجانا چاہیے، جو بلا شبہ وہ ہیں اور ہمیشہ رہیں گے، بلکہ جدید بھارت کے سب سے اہم مفکرین میں سے ایک کے طور پر بھی دیکھا جانا چاہیے۔
یہ بات ریکارڈوں میں ہے کہ اسکول کے زمانے میں انھیں اس مشترکہ نل سے پانی پینے کی بھی اجازت نہیں تھی جس سے دوسرے بچے پانی پیتے تھے۔ ایک دن شدید گرمی میں جب انھوں نے اپنے قریب ترین نل سے پانی پی لیا تو انھیں اس ظالمانہ قاعدے کی خلاف ورزی کرنے کی پاداش میں زدو کوب کیا گیا۔ ایسے واقعے کے بعد، بہت سے چھوٹےلڑکے اپنی قسمت کے آگے سپر انداز ہوجاتے، کچھ ردعمل کا شکار ہوکر پرتشدد کارروائیوں کے ذریعے غیر منصفانہ نظام کے خلاف بغاوت کر بیٹھتے۔ لیکن ڈاکٹر امبیڈکر نے اپنے داخلی غصے کو سیکھنے کی ترغیب میں بدل دیا۔ انھوں نے کولمبیا اور لندن اسکول آف اکنامکس سے ڈگریوں سمیت ایم اے، ایم ایس سی، پی ایچ ڈی، ڈی ایس سی، ڈی لٹ اور بار ایٹ لا کی ڈگریاں حاصل کیں۔ اگر سماج انھیں اسی نل سے پانی پینے یا ان ہی اسکولوں میں پڑھنے کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں تھا، تو نہ سہی، انھوں نے ان کو یکسر نظر انداز کر کے ، بیرون ملک جاکر اپنی تعلیم مکمل کی۔ اس کے باوجود، وہ ہمیشہ بھارت واپس آنے، اپنی مادر گیتی اور کرم بھومی پر کام کرنے کے لیے ذہن میں ایک واضح وژن رکھتے تھے۔
قدرت نے ڈاکٹر امبیڈکر کو بے مثال جرات، ذہانت اور ایمان داری عطا کی تھی، جس کا استعمال انھوں نے ایک سماجی مصلح، قانون دان، ماہر معاشیات، فلسفی، انسانی حقوق کے علم بردار اور قوم کے معمار کے طور پر کیا۔ ڈاکٹر امبیڈکر کی علمیت کی گہرائی، گیرائی اور وسعت بے نظیر ہے۔ انھوں نے سیاست سے لے کر اخلاقیات تک، سماجیات سے لے کر بشریات تک، معاشیات سے لے کر قانون تک اور سیاسی معیشت سے لے کر الہیات تک کے موضوعات اور مضامین پر وسیع پیمانے پر لکھا۔
ایک ادارہ ساز کے طور پر بھی ڈاکٹر امبیڈکر کے کردار کو اجاگر کیے جانے کی ضرورت ہے۔ جدید بھارت کے کئی ادارے، جیسے آر بی آئی اور سینٹرل واٹر کمیشن بابا صاحب کی دور اندیشی کا ثبوت ہیں۔ معاشیات اور معاشی تاریخ پر اپنی مہارت کی بنیاد پر انھوں نے رائل کمیشن آن انڈین کرنسی اینڈ فنانس کے سامنے سماعت میں بھارت کو درپیش مالیاتی مسائل کا تجزیہ پیش کیا۔ اس مقالے میں انھوں نے تفصیل سے بتایا کہ کس طرح انگریزوں کے ذریعے قائم کردہ فکسڈ ایکسچینج کے نظام نے بھارت میں صرف ان کے مفادات کی تکمیل کی۔ انجام کار، یہی مرکزی بینک کے کاموں کو انجام دینے کے لیے ریزرو بینک آف انڈیا کو تشکیل دینے کی بنیاد بنا۔
ایک کٹر جمہوریت پسند ہونے کے ناطے ڈاکٹر امبیڈکر کا یہ بھی ماننا تھا کہ حکومت کی جمہوری شکل معاشرے کی جمہوری شکل سے مشروط ہے۔ ان کا ماننا تھا کہ معاشرے میں اخلاقی نظم و ضبط کے بغیر جمہوریت اور قانون کی حکم رانینہیں ہو سکتی۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ان کے لیے جمہوریت، سیاست اور اخلاقیات نے آزادی، مساوات اور بھائی چارے کی طرح ایک تثلیث تشکیل دی۔ ان کا ماننا تھا کہ ’’آپ سیاست تو سیکھ سکتے ہیں لیکن ضروری نہیں کہ آپ اخلاقیات کے بارے میں کچھ بھی واقفیت رکھتے ہوں‘‘، گویا سیاست اخلاقیات کے بغیر کام کر سکتی ہے۔ میرے خیال میں یہ ایک حیرت انگیز تجویز ہے اور ’اگر اخلاقی نظام نہ ہو تو جمہوریت پارہ پارہ ہو جائے گی۔ ‘‘ اپنے سب سے بڑے مکالمہ کار گاندھی جی کی طرح امبیڈکر بھی بنیادی سماجی اصلاحات کے لیے عہدبستہ تھے۔


اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ بھارت کے مستقبل، اس کی جمہوریت اور محنت سے کمائی گئی آزادی کے بارے میں بہت فکرمند تھے۔ آئین ساز اسمبلی میں ان کا آخری خطاب ان کے اسی اضطراب کا غماز ہے۔ ڈاکٹر امبیڈکر نے کہا تھا کہ ہمیں اپنے خون کے آخری قطرے سے اپنی آزادی کا دفاع کرنے کے لیے پرعزم رہنا چاہیے۔ انھوں نے خبردار کیا تھا کہ اگر بھارتی مطمئن ہوگئے تو بھارت دوسری بار اپنی جمہوریت اور آزادی کھو بیٹھےگا۔ پونا میں اپنے ایک خطاب میں انھوں نے کہا تھا، ’’ہمارے پاس ایک آئین ہے جو جمہوریت فراہم کرتا ہے۔ ٹھیک ہے، ہم مزید کیا چاہتے ہیں؟ … میں آپ کو اس طرح کے احساس کے خلاف متنبہ کرتا ہوں کہ آئین کی تشکیل کے ساتھ ہمارا کام پورا ہو چکاہے۔ نہیں، کام ابھی پورا نہیں ہوا۔ یہ تو اب شروع ہوا ہے۔‘‘ آئین کے صدرمعمار کا یہ قول ظاہر کرتا ہے کہ وہ واقعی کتنے دور اندیش تھے۔


یہ ان ہی کے انتباہی الفاظ ہیں جنھوں نے بھارت کو تقریباً آٹھ دہائیوں تک ایک متحرک جمہوریت کی راہ پر گامزن رکھا ہوا ہے۔ تاہم آج ہم کچھ لوگوں کے ذریعے ذات پات، مذہب، نسل، زبان وغیرہ جیسے سماجی اختلافات کی بنیاد پر بھارتیوںکے درمیان بھائی چارے کو کم کرنے کی کوششیں دیکھی جا رہی ہیں۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانے کے لیے محتاط رہنا چاہیے کہ یہ تفرقہ انگیز رجحانات ناکام کوششیں ثابت ہوں۔ ڈاکٹر امبیڈکر کی تحریروں کو دوبارہ پڑھنا اور ان کے ساتھ دوبارہ جڑنا اس مقصد میں ہماری رہ نمائی کرسکتا ہے۔
مثال کے طور پر ڈاکٹر امبیڈکر نے آریائی حملے کے نظریے کا ایک ایسے وقت میں مذاق اڑایا تھا جب وہ آریائی-دراوڑ تقسیم سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتے تھے۔ بابا صاحب نے 1918 میں شائع ہونے والے اپنے ایک مقالے میں لکھا تھا، ’’ کوئی قبیلہ یا خاندان نسلی طور پر آریائی ہےیا دراوڑ، یہ ایک ایسا سوال ہے جس نے بھارت کے لوگوں کو اس وقت تک پریشان نہیں کیا جب تک کہ غیر ملکی اسکالر یہاں نہیں آئے اور انھوں نے لکیر کھینچنا شروع نہیں کردی۔ ‘‘ دوسرے مقامات پر انھوں نے کئی مثالیں پیش کیں جن میں یجر وید اور اتھرو وید کے رشیوں کے ذریعے شودروں کو عزت دینے کی خواہش کا اظہار تھا اور کئی مواقع پر شودر راجا بھی بنا۔ انھوں نے اس نظریے کو بھی واضح طور پر مسترد کیاکہ اچھوت نسلی طور پر آریاوں اور دراوڑوں سے مختلف نسل ہیں۔
مزید برآں، جو لوگ لسانی مسائل کو اپنے تنگ نظر اور فرقہ وارانہ مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، انھیں ملک کے اتحاد اور اس میں ایک زبان کے کردار کے بارے میں ڈاکٹر امبیڈکر کے خیالات کو پڑھنے سے بہت فائدہ ہوگا۔ 10 ستمبر 1949 کو انھوں نے آئین ساز اسمبلی میں ایک ترمیم پیش کی تھی جس میں سنسکرت کو انڈین یونین کی سرکاری زبان کے طور پر اپنانے کی تجویز رکھی گئی تھی۔ اپنی کتاب ’’لسانی ریاستوں کے بارے میں خیالات‘‘ میں انھوں نے یہ بھی اعلان کیا تھا کہ ’’ہندی کو اپنی زبان کے طور پر تسلیم کرنا تمام بھارتیوں کا فرض ہے۔‘‘ واضح رہے کہ بابا صاحب مقامی ہندی بولنے والے نہیں تھے، پھر بھی انھوں نے یہ بات اس لیے کہی کیوں کہ انھوں نے قوم کو اولیت دی تھی۔


ڈاکٹر امبیڈکر نے 22 دسمبر 1952 کو ’’جمہوریت کی کام یابی کے لیے درکار شرائط‘‘ کے عنوان سے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ جمہوریت کی شکل اور مقصد وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتا رہتا ہے اور جدید جمہوریت کا مقصد عوام کی بہبود ہے۔ اس وژن کے ساتھ انتھک محنت کرتے ہوئے گذشتہ 10 برسوں میں ہماری حکومت 25 کروڑ لوگوں کو غربت سے نکالنے میں کام یاب ہوئی ہے۔ ہم نے 16کروڑ گھروں میں نل کا پانی فراہم کرنے کے لیے کام کیا ہے۔ ہم نے غریب کنبوں کے لیے پانچ کروڑ گھر بنائے ہیں۔ سال 2023 میں وزیر اعظم جناب نریندر مودی جی کے ذریعے جن من ابھیان کا افتتاح کیا گیا ۔ اس کا مقصد خاص طور پر کم زور قبائلی گروہوں (پی وی ٹی جی) کے سماجی و اقتصادی حالات کو بہتر بنانا اور پی وی ٹی جی گھرانوں اور آبادیوں کو بنیادی سہولیات سے آراستہ کرنا ہے۔ ہم نے یونیورسل ہیلتھ کوریج (یو ایچ سی) کے وژن کو حاصل کرنے کے لیے ’آیوشمان بھارت پردھان منتری جن آروگیہ یوجنا‘ بھی شروع کی۔ وزیر اعظم جناب نریندر مودی جی کی قیادت اور رہ نمائی میں عوام کے لیے ہماری حکومت کے فلاحی کام جمہوریت کے تئیں ہماری وابستگی اور بابا صاحب کے تئیں ہمارے احترام کو ظاہر کرتے ہیں۔
ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کا ماننا تھا کہ سماجی اور معاشی جمہوریت سیاسی جمہوریت کے شانہ بشانہ چلتی ہے۔ وزیر اعظم جناب نریندر مودی جی نے 2047 تک ’وکست بھارت‘ کا ہدف مقرر کیا ہے۔ یہ ہدف بابا صاحب کے وژن سے ہم آہنگ ہے۔ مزید برآں، یہ یقینی بنانے کے لیے کہ آنے والی نسلیں بابا صاحب کی وراثت اور خدمات کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جان سکیں، ہماری حکومت نے پنچ تیرتھ کو ترقی دینے کا کام کیا ہے، ڈاکٹر امبیڈکر سے جڑے یہ پانچ مشہور مقامات مہو (مدھیہ پردیش)، ناگپور (مہاراشٹر) میں دیکشا بھومی، لندن میں ڈاکٹر امبیڈکر میموریل ہوم، علی پور روڈ (دہلی) میں مہاپری نیروان بھومی اور ممبئی (مہاراشٹر) میں چیتیا بھومی ہیں۔
پچھلے مہینے جب وزیر اعظم نریندر مودی جی نے دیکشا بھومی کا دورہ کیا تھا تو انھوں نے بابا صاحب کے تصور کردہ بھارت کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مزید محنت کرنے کے حکومت کے عزم کا اعادہ کیا تھا۔ بابا صاحب کی جینتی تمام بھارتیوں کو ان کے ذریعے دی گئی اقدار اور نظریات کے تئیں اپنے عہد کی تجدید کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ آئیے ہم اپنی نسل، مذہب، علاقے، ذات پات اور نسل سے اوپر اٹھیں اور ’بھارتی‘ بنیں۔ ان کے ورثے کا صحیح معنوں میں احترام کرنے کے لیے ہمیں ان کے فکر کے ساتھپوری وسعت اور گہرائی کے ساتھ جڑنا چاہیے اور انھیں محض ایک طبقے کے رہ نما کا درجہ دینے کی تمام کوششوں کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ جیسا کہ انھوں نے سائمن کمیشن کو پیروی میں کہا تھا کہ کہ اشد ضرورت لوگوں میں یہ احساس پیدا کرنے کی ہے کہ ’وہ اول بھی بھارتی ہیں اور آخر بھی بھارتی ہیں‘ اور ’مقامی حب الوطنی اور گروہی شعور‘ کے زیر اثر آجانے کے خلاف متنبہ کیا تھا۔ بابا صاحب بھارت کے لیے خدا کا تحفہ ہیں اور دنیا کے لیے وہ بھارت کا تحفہ ہیں۔ آج 135 سال بعد، آئیے ہم انھیں وہی مقام دیں جس کے وہ حق دار ہیں، جسے دینے سے ان سے برٹش انڈیا نے بھی انکار کیا اور نو آزاد شدہ ملک نے بھی۔

تحریر
رکشا منتری راج ناتھ سنگھ