उर्दूबिहार

عدالت عظمیٰ کے تاریخی فیصلے پر تہنیتی تقریب کا انعقاد



اردو زبان اور عدالتی فیصلہ پر مختلف اہل علم و دانشوران کے تاثرات


بھاگلپور : اردو رابطہ کمیٹی کے زیر اہتمام شہر کے ایک مقامی ہوٹل میں اردو کے تعلق سے عدالت عظمیٰ کے تاریخی فیصلے پر ایک تہنیتی تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ اس موقع پر مختلف اہل علم و دانشوران نے اردو زبان کی اہمیت، اس کے تحفظ اور عدالتی فیصلے پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

اس موقع پر صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے صدر پروفیسر ڈاکٹر شاہد رزمی نے کہا کہ اس تاریخ ساز فیصلے پر جسٹس سدھانشو دھولیہ اور جسٹس کے ونود چندرن کو سلام کرتا ہوں کہ انہوں نے ہماری باتوں کا اعادہ کیا کہ اردو ہندوستانی زبان ہے اور زبانوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔یہ متعصب لوگوں کے منہ پر بھرپور طمانچہ ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ یہ ہندوستانی آئین کی جیت ہے۔اخیر میں اقبال اشعر کا شعر جسے عدالت عظمیٰ نے بھی کوٹ کیا ہے پیش کیا۔


کیوں مجھ کو بناتے ہو تعصب کا نشانہ
میں نے تو کبھی خود کو مسلمان نہیں مانا


مہمان خصوصی پروفیسر ڈاکٹر فاروق علی (سابق وائس چانسلر، چھپرہ یونیورسٹی)نے کہا کہ
ملک کی تقسیم کے بعد اردو کے ساتھ سوتیلا سلوک کیا جانے لگا۔ آج بھی ہمیں اردو زبان میں امتحانی پرچے نہ دینے جیسے مسائل درپیش ہیں۔ ہمیں اردو کے محبین کو آمادہ کرنے کی ضرورت ہے کہ اردو کو اس کا حق ملے۔ ہمیں مسلسل انتباہ دیا جا رہا ہے۔ اس لیے ہمیں ہوشیار رہنے اور اردو والوں کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ہار نہیں ماننیہے۔


اس موقع پر مہمان ذی وقار
ڈپٹی میئر ڈاکٹر صلاح الدین احسن نے کہا کہ
سب سے پہلے ہمیں اردو کو اپنی عملی زبان بنانا ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ کتنے اردو اخبارات نکلتے ہیں اور کتنے لوگ خریدتے ہیں؟ ہمیں اردو کے لیے عملی جدوجہد کرنی ہوگی، عزمِ مستحکم کی ضرورت ہے۔ ایک مہم چلانے کی ضرورت ہے، اور تلکا مانجھی بھاگلپور یونیورسٹی میں اردو زبان میں پرچہ لکھنے کی اجازت بھی دینی چاہیے۔


ڈاکٹر مشفق عالم (ٹی این بی کالج) نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ
اردو کی اسکرپٹ بدل دی گئی، اسے سیاست کا شکار بنایا گیا۔ اردو اور ہندی کو ایک دوسرے سے جدا کیا گیا، حالانکہ اردو کی جڑیں سنسکرت میں ہیں۔ اردو کو اردو رہنے دیجئے، یہی انڈیا کی اصل پہچان ہے۔ اسے زندہ رکھنا ضروری ہے۔


ڈاکٹر اختر آزاد (ٹی این بی کالج) نے کہا کہ
ہم ایک ایسے فیصلے پر خوشی منارہے ہیں جس کے لیے ہمیں خود پہلے سے بیدار ہونا چاہیے تھا۔ ہمیں سڑکوں پر آنے کی ضرورت ہے۔ اردو ہماری جذبات، تہذیب اور معاشیات سے جڑی ہوئی زبان ہے۔ ہمیں اس کی مخالفت کرنے والوں سے مقابلہ کرنا ہے اور اردو کے تحفظ و فروغ کے لیے سرگرم ہونا ہوگا۔


ڈاکٹر حبیب مرشد سکریٹری رابطہ کمیٹی نے نظامت کرتے ہوئے کہا کہ اردو کے سلسلے میں تاریخی فیصلہ ہے جسے ہم لوگ اپنی عملی زندگی میں اتاریں۔


کاظم اشرفی نے کہا کہ
اردو ہندوستان میں پلی بڑھی زبان ہے، اسے سیاست کا شکار نہیں بنایا جانا چاہیے۔ کرشن بہاری نور نے بھی یہی کہا تھا کہ ہمیں متحد ہوکر اردو کے لیے کام کرنا ہوگا۔ اتحاد ہی اردو کو فروغ دے سکتا ہے۔


فیاض حسین نے کہا کہ
اردو نے آزادی کی جدوجہد میں بے مثال کردار ادا کیا۔ غیروں نے بھی اردو کو اپنایا۔ جو لوگ اردو کو عصبیت کا نشانہ بناکر سیاسی فائدے اٹھانا چاہتے تھے، انہیں عدالت عظمیٰ نے واضح جواب دیا ہے۔ امیر خسرو کے زمانے سے اردو کا آغاز ہوا، اور آج ہم ہندی و اردو دونوں کے دن مناتے ہیں۔ دونوں زبانیں ہماری تہذیب کا حصہ ہیں، ان کے بغیر ہم ادھورے ہیں۔


ڈاکٹر واصف الخیر ٹی این بی کالج نے کہا کہ
ایک غیر مسلم جج، جو شاید اردو کے حروفِ تہجی سے بھی واقف نہ ہو، اس نے اردو زبان کے بارے میں جو بات کہی وہ صرف تعریف ہی نہیں بلکہ اردو کے حق میں ستائش اور حوصلہ افزائی بھی تھی۔ ہمیں اس جذبے کو سراہنا چاہیے۔


نعیم نے کہا کہ
ہم اردو زبان میں ہی اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔ عدالت نے حق بات کہی ہے لیکن ہمیں خود بھی جدوجہد کرنی ہوگی۔ ہمیں فعال اور متحرک ہونا ہوگا تاکہ اردو کی ترقی ممکن ہو سکے۔


ڈ اکٹر وسیم رضا نے کہا کہ
یہ اردو زبان کے حق میں ایک تاریخی قدم ہے۔ جو کام ہم نہ کرسکے، وہ دوسروں نے کر دکھایا۔ نواب رائے جیسے افراد نے اردو کے لیے اذیتیں سہی ہیں، ہمیں ان قربانیوں کو یاد رکھنا ہوگا۔اظہار تشکر تقی جاوید نے کیا۔اس موقع پر ایک ڈیلیگیشن کی تشکیل بھی عمل میں آئی۔