उर्दू

معراج النبی تاریخ انسانی کا ایسا حیرت انگیز اور نادر الوقوع واقعہ ہے جسکی تفصیلات پر عقل آج بھی حیران و ششدر ہے پیر طریقت عباس نیازی


علی گڑھ(شوذب منیر)
علی گڑھ کے سرسید نگر میں واقع خانقاہے نیازیہ میں النیاز ایجوکیشن اینڈ ویل فیئر سوسائٹی کے زیر اہتمام جشن معراج النبی کا اہتمام کیا گیا
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے پیر طریقت ڈاکٹر عباس نیازی نے کہاکہ رجب کی ستائیسویں شب کو اللہ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو معراج کا شرف عطا کیا۔ نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزات میں معجزۂ معراج خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ تاریخ انبیاء کی ورق گردانی کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اپنے رسولوں اور نبیوں کو اللہ رب العزت نے اپنے خصوصی معجزات سے نوازا۔ ہر نبی کو اپنے عہد، اپنے زمانے اور اپنے علاقے کے حوالے سے معجزات سے نوازا تاکہ ان کی حقانیت ہر فرد بشر پر آشکار ہو اور وہ ایمان کی دولت سے سرفراز کیا جائے ،چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جادو کے کمالات کا توڑ کرنے کے لئے معجزات عطا کئے۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دور میں طب کا بڑا چرچا تھا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مردوں کو بھی زندہ کر دینے کی قدرت سے فیض یاب تھے۔ کوڑھیوں کو تندرست کر دیتے کہ اس زمانے میں طب کا دور دورہ تھا اور انسانی نفسیات کو یہی بات زیادہ اپیل ہر نبی اپنے وقت کے ہر کمال سے آگے ہوتا ہے۔ امت جس کمال پر فائز ہوتی ہے نبی اس کمال پر بھی حاوی ہوتا ہے۔
پیر طریقت ڈاکٹر عباس نیازی نے کہاکہ نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کودنیا میں تشریف لانا تھا، باب نبوت و رسالت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہی بند ہو رہا تھا۔ ختم نبوت کا تاج سر اقدس پر سجایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم المرسلین قرار پائے چنانچہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایسے معجزات سے نوازا گیا جن کا مقابلہ تمام زمانوں کی قومیں مل کر بھی نہ کر سکتی تھیں۔ اللہ کو معلوم تھا کہ جلد ہی دنیا چاند پر قدم رکھے گی اور ستاروں پر کمندیں ڈالے گی لہٰذا اللہ نے اپنے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مکان و لامکاں کی وسعتوں میں سے نکال کر اپنے قرب کی حقیقت عطا فرمائی جسکا گمان بھی عقل انسانی میں نہیں آ سکتا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے باقی تمام معجزات اور دیگر انبیاء و رسل کے تمام معجزات ایک جانباور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معجزۂ معراج ایک جانب تمام معجزات مل کر بھی معجزۂ معراج کی ہمہ گیریت اور عالمگیریت کو نہیں پہنچ سکتے۔
پیر طریقت ڈاکٹر عباس نیازی نے کہاکہ معجزۂ معراج تاریخ ارتقائے نسل انسانی کا وہ سنگ میل ہے جسے قصر ایمان کا بنیادی پتھر بنائے بغیر تاریخ بندگی مکمل نہیں ہوتی ،روح کی تشنگی کا مداوا نہیں ہوتا۔ معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تاریخ انسانی کا ایک ایسا حیرت انگیز، انوکھا اور نادر الوقوع واقعہ ہے جسکی تفصیلات پر عقل ناقص آج بھی حیران و ششدر ہے۔ اسے کچھ سجھائی نہیں دیتا کہ سفر معراج کیونکہ طے ہوا؟ عقل حیرت کی تصویر بن جاتی ہے، مادی فلسفہ کی خوگر، اربعہ عناصر کی بے دام باندی عقل ناقص یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ انسان کامل حدودسماوی کو عبور کر کے آسمان کی بلندیاں طے کرتا ہوا لامکاں کی وسعتوں تک کیسے پرواز کر سکتا ہے اور وہ کچھ دیکھ لیتا ہے جسے دیکھنے کی عام انسانی نظر میں تاب نہیں، اس لئے حدود و قیود کے پابند لوگ اس بے مثال سفر معراج کے عروج و ارتقاء پر انگشت بدنداں ہیں اور اسے من و عن اور مستند انداز سے مذکورہ تفصیلات کے ساتھ بھی ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے اور ایسے ایسے شبہات وارد کرتے ہیں اور تشکیک کا ایسا غبار اڑاتے ہیں کہ دلائل سے غیر مسلح ذہن اور عام آدمی ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا اور دیوارایمان متزلزل سی ہونے لگتی ہے۔یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دائمی معجزہ ہے جس کی عظمت میں وقت کا سفر طے ہونے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا جائے گا اور نئے نئے کائناتی انکشافات سامنے آ کر معجزۂ معراج کی حقانیت کی گواہی دیتے رہیں گے۔ ارتقاء کے سفر میں اٹھنے والا ہر قدم سفر معراج میں نقوش کف پا کی تلاش میں سرگرداں ہے پیر طریقت ڈاکٹر عباس نیازی نے کہاکہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں مکہ سے اٹھا اور براق پر سوار ہو کر بیت المقدس پہنچا، وہاں سے آسمانوں اور پھر وہاں سے عرش معلی تک گیا حتیٰ کہ مکان و لامکاں کی وسعتیں طے کرتا ہوا مقامِ قاب و قوسین پر پہنچا اور پھر حسن مطلق کا بے نقاب جلوہ کیا۔ انبیائے کرام سے ملاقاتیں کیں، جب لوٹا تو گھر کے دروازے کی کنڈی ہل رہی تھی اور غسل و وضو کا پانی حرکت میں تھا۔ ابولہب اور ابوجہل کی عقل آڑے آ گئی۔ غبارتشکیک نے حقائق کو چھپا لیا۔انسان کا سفر ارتقاء نقوش کف پائے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلاش کا نام ہے۔
سفرِ معراج عالمِ بیداری میں طے ہوا
پیر طریقت ڈاکٹر عباس نیازی نے کہاکہ آج کے سائنسی دور کے ارتقاء اور کائناتی انکشافات کے اس دور میں بھی اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ میں نے خواب میں زمینوں اور آسمانوں کی سیر کی اور جب میں واپس آیا تو میرا بستر گرم تھا تو اسے مِن و عن تسلیم کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ خواب کی بات ہے اور خواب میں ایسا ہونا ممکن ہے۔ اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی یہ دعویٰ خواب کے حوالے سے کرتے تو ابولہب کو اس کی حقانیت سے انکار ہوتا اور نہ ابوجہل کو۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دعویٰ عالم بیداری میں کیا گیا کہ آسمانوں اور زمینوں کی سیر میں نے عالم بیداری میں کی، اس لئے عقل عیار اسے تسلیم کرنے پر تیار نہ ہوئی۔اب چونکہ جاگتے ہوئے یہ سب کچھ ہونا انسانی فہم و ادراک سے بالاتر تھا لہٰذا اس معجزہ کو اہل ایمان کے لئے ان کے ایمانوں کی آزمائش قرار دیا گیا
پیر طریقت ڈاکٹر عباس نیازی نے کہاکہ بعض لوگ یہ سمجھتے کہ رویا چونکہ عام طور پر خواب کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے لہٰذا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سفر معراج خواب میں عطا ہوا،درحقیقت یہ مفہوم غلط ہے۔ عربی زبان میں رؤیاء رات کے وقت کھلی آنکھوں سے دیکھنے کو بھی کہتے ہیں، یہاں رویاء سے مراد مطلق مشاہدہ ہے۔ اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن نے بنی اسرائیل میںتاکہ ہم اس (بندۂ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں۔چونکہ یہ چیز کسی بھی شخص کے لئے عملاً ناممکن تھی لہٰذا اللہ رب العزت نے اسے اپنی قدرتوں کی طرف منسوب کرتے ہوئے فرمایا پاک ہے وہ قادرمطلق جو لے گیا اپنے بندے کو رات کے وقت سیر کرانے۔ پیر طریقت ڈاکٹر عباس نیازی نے کہاکہ کفار و مشرکین مکہ کا رد عمل ہی ظاہر کرتا ہے کہ معجزۂ معراج کوئی معمولی واقعہ تھا اور نہ یہ کوئی خواب ہی بیان ہو رہا تھا۔ اگر یہ خواب ہوتا تو کفار و مشرکین کا ایسا منکرانہ ردعمل سامنے نہ آتا اور نہ قرآن میں اسکا ذکر اس اہتمام سے ہوتا۔
پیر طریقت ڈاکٹر عباس نیازی نے کہاکہ انسان ظاہر و باطن کا پیکر دلنشیں ہے داخل سے خارج تک اور خارج سے داخل تک کا سفر بے شمار مراحل کا امین ہوتا ہے۔ باطن ایک شفاف آئینہ ہے جس میں ظاہر کی دنیا کا ہر عکس جلوہ گر ہوتا ہے۔ اس طرح ظاہر بھی من کی دنیا کا عکاس ہے۔ باطن کے پانچ لطائف ہوتے ہیں۔ قلب، روح، سرّ، خفی اور اخفی۔ سفر معراج عالم بیداری میں طے ہوا۔ اسکی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ یہ معراج یک جہتی نہ تھی بلکہ تاجدارکائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا ہونے والی معراج تمام لطائف کی بھی معراج تھی۔ وہ ایسے کہ ہر لطیفے کا مقام اپنی جگہ سے اٹھ کر اوپر کے مقام پر چلا گیا یعنی جسم اطہر جو نفس کا مظہر تھا جب مقامِ قاب قوسین پر پہنچا تو وہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسم اطہر تھا لیکن جسم کے مقام سے اٹھ مرتبۂ قلب پر پہنچ گیا تھا۔ یہ بات اگر سمجھ میں آ جائے تو یہ خود بخود واضح ہو جاتا ہے کہ شب معراج حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ پاک کا دیدار سر کی آنکھوں سے کیسے کیا۔
اس موقع پر بارگاہ رسالت میں منطوم خراج عقیدت پیش کی گئی ۔ وہیںاس موقع پر حىدر على نىازى حافظ فرقان نىازى، صفدر نىازى ،جعفر نىازى ،حىدر عباس نىازى، رو حان نیازی ،علی زمن نیازی ،علی حسنین نیازی، عباد نیازی، فخرى على نىازى سرور عظیم نیازی ، جنیدنیازی کریم نیازی اورمتعدد لوگ موجود تھے۔